اِس ایک نظر کی چاندی میں
وہ پَل بھی خالی بِیت گیا
اور چاند بھی مدھم پڑ گیا
پھر شرم کی نازُک چادر میں
…کہیِں رات ڈھلی کہیِں شام چُھپی
اُن کورے نینوں میں بس کر
اِس دل نے تھوڑا صبر کیا
پھر رحم کے ترستے کاجل میں
…کہِیں شام ڈھلی کہیِں رات چھُپی
اُس شوخ کے دِلکش پیکر میں
اِک تارہ ٹُوٹا اُلفت کا اورکِہکشاں
کے جھُرمٹ میں جب تُم نے میرا
نام لِیا پھر پلَک کی ڈوری میں
…کہیِں شام چھُپی کہِیں رات ڈھلی