کبھی چُومتی ہے قدم تو کبھی دُھتکار دیتی ہے
قُربان جاتی ہُوں اِس زندگی کے کھیل پر
کبھی نوازے ہے اِنعام سے تو کبھی چھِین لیتی ہے
مُسکرا لیتی ہُوں اِس زندگی کے کھیل پر
کبھی دیکھتی ہے چاہ سے تو کبھی تھامے بے رُخی
حیراں ہو جاتی ہُوں اِس زندگی کے کھیل پر
کبھی اُٹھا لے بانہوں میں تو کبھی گِرا دیتی ہے
چند اَشک بہا لیتی ہُوں اِس زندگی کے کھیل پر