اِشارے تو دیتی ہیں کبھی زرخیز
ڈالیاں اور کبھی مخملی گُلاب کہ
بہار آئی ہے لے کے نۓ افسانے تو
کر لے ارمان پُورے مگر وقت ہے جو
کہتا ہے کہ ابھی رُک جا زرا
…چَند روز اور
چھنکنے میں ابھی پایل کے دن
ٹِھہرےاور اِنتہا ہے صبر کی کہ
اُسے بِکھرنے کی عادَت ہے تو شرمِیلے
پاؤں بھی حُکم مانتے ہیں اُن سُروں کا
جو کہتے ہیں کہ سنبھل جا
…چَند روز اور
اِنتظار میں ہے کنگن کہ سِہہ نہ
پاۓ بِن کھنکے اور رِہ نہ پاۓ بن چھُوۓ
جاؤ ، کہہ دو پِیا سے کہ پیاسی بانہیں
نہ ترسائیں تو کیوں کسمساؤُں
…چَند روز اور
جلُوں بن سَجن تڑپُوں بِنا نظارہ
تو کیوں نہ شِکوہ کریں نین اور
وہ کہے اَشک پِی جا
…چَند روز اور
کیا نہیں ہے آنچل کے رُخ پہ
ستارہ ، افشاں ، یا سنگِ مَرمَر
اور اُس پہ ستم کہ ہِجر کے لَب
یہی دُہائی دیں کہ چھُپ جا
…چَند روز اور
جانم! کیوں نہ چاہُوں تُمہیں کہ
زرّہ زرّہ گواہ ہے میری ذات کا
تُم سے آشنائی کا پھر بھی درد
کہتا ہے کہ سِہہ جا
…چَند روز اور
خُود کو دیکھا نہیں زمانے ہُوۓ
اور اَب جب آئینہ سامنے ہے تو
عکس کہتا ہے اِنتظار کر
…چَند روز اور