رات ایک خیال کو چھُوا میں نے
اندھیر نگری میں نُور پایا میں نے
خوابیدہ کروٹوں کے تکیۓ تلے
سچ میں لِپٹا سراب دیکھا میں نے
نرم چاندنی کے وجُود میں بَستا
نِصف جوبن کا داغ پرکھا میں نے
گھنی پلکوں کی جھیل میں اُترتے ہی
نازنین جذبات کا عکس پہچانا میں نے
اُس اِنتظار کو بنا کر تاج ماتھے کا
تمام سلطنت کا خزانہ سمیٹا میں نے