میرے الفاظ ہی پِہچان ہیں میری
یہ نہیں تو میں کُچھ بھی نہیں
یہ حرف کریں خُلاصہ زندگی کا
یہ نہیں تو میں کُچھ بھی نہیں
صفحےکو مِلتی نہیں رُبائی کوئی
یہ نہیں تو میں کُچھ بھی نہیں
پڑھتی ہُوں کہانی کے زوال کو
یہ نہیں تو میں کُچھ بھی نہیں
مہمان ہے پَل بھر کا سرُور میرا
یہ نہیں تو میں کُچھ بھی نہیں
ایک دن تو اختتام اٹل ہے میرا
یہ نہیں تو میں کُچھ بھی نہیں
مُستقل نہیں ہیں یہ راستے شمعٰ
یہ نہیں تو میں کُچھ بھی نہیں
Kuch bhi nahin…
LikeLike