کہِیں تُمہیں وہ نظر تو یاد
نہیں آتی جس کی مستی
چُوما کرتی تھی تُمہیں
وصل کی بہاروں میں؟
کہیِں تُمہاری دھڑکن کا
جی چُراتی تو نہیں وہ نبض
جس کو چھُوا تھا تم نے
وصل کی بہاروں میں؟
کہِیں اُن ہاتھوں کی حِدّت
بہکاتی تو نہیں تُمہاری تڑپ
تھاما تھا جس نے تمہیں
وصل کی بہاروں میں؟
کہِیں تمہیں اُس آغوش کی مِہک
بُلاتی تو نہیں جس کی خوُشبو
میں بھُلایا تھا تم نے خُود کو
وصل کی بہاروں میں؟