کُچھ پُوچھ بھی لیں اگر تو غم نہ کرنا
یہ ادا ہے مُحبّت کی کوئی شکوہ تو نہیں
ڈُوبتے فاصلوں میں حسرتیں زندہ رہیں
یہ وفا ہے مُحبّت کی کوئی شکوہ تو نہیں
خاموش رہے زُباں ستم سہنے کے باوجود
یہ جزا ہے مُحبّت کی کوئی شکوہ تو نہیں
جواب سے نہ پُوچھ سوال میں چھُپے بھید
یہ رضا ہے مُحبّت کی کوئی شکوہ تو نہیں
یہ لَب یہ نظر اور آرزوؤں میں مانگا ہُوا پل
یہ دُعا ہے مُحبّت کی کوئی شکوہ تو نہیں