….آج آزاد ہے دل
اُن جھُوٹے دِلاسوں سے
جہاں پُہنچ کر کِیۓ تھے
..کبھی روشن زمانے میں نے
….آج آزاد ہے جاں
اُس قید سے جہاں لگا
تھا کبھی کہ بیڑیوں سے
..سنورتا ہے حُسن اور بھی
….آج آزاد ہے رُوح
مِٹّی تلے اُس ڈھیر سے
جس کی دِیواروں میں ڈھُونڈا
…تھا کبھی اپنا آشیانہ
….آج آزاد ہے شمعٰ
اُن آنسوؤں سے جن کو
پیِتے ہی فنا ہُوا کرتی تھی
…چاہت پروانے کی کبھی