مِٹّی کے ڈھیر تلے دبی جاتی ہُوں
درد کی پَستی تلے دھنسی جاتی ہُوں
پراۓ غم ہوں یا زخمِ آشنائی
مایوس سمندر تلے ڈُوبی جاتی ہُوں
سہا جاۓ نہ وہ زہر جس کے اثر سے
موت کے پردے تلے اُتری جاتی ہُوں
خوف کے ساۓ نے جکڑا ہے کلیجے کو
نا قدری کے کفن تلے چھُپی جاتی ہُوں
بزمِ شمعٰ اب راکھ کا ڈھیر ہے فقَط
سسکتی موم تلے جمی جاتی ہُوں