خُود کو رات میں ڈھلتے جب دیکھُوں
سیاہی اور بھی کالی لگنے لگتی ہے
اندر کا سنّاٹا جب شور مچاتا ہے تو
خاموشی اور بھی بے زُباں لگنے لگتی ہے
آزاد ہونے لگیں جب پَر خواہشوں کے
غُلامی اور بھی تنگ دَست لگنے لگتی ہے
نہ کر سکُوں وعدوں سے وفا داری اگر
بے وفائی اور بھی بے وفا لگنے لگتی ہے
!دَم نہ ہو جب بھی تیری لَو میں اے شمعٰ
یہ مُحبّت اور بھی بے نُور لگنے لگتی ہے