خُود کو پِہچان لیا ہے بڑی تگ و دو کے بعد
یہ کرم ہے مُحبّت کا یا پھر خُدا کی مار
اب آئینہ کم دیکھتا ہے وجُود کہ ڈَر لگتا ہے
یہ داغ ہے بدصُورت یا پھر خُدا کی مار
نہ ہِمّت رہی نہ ہی حوصلہ افزائی کے خط مِلے
شاموں پہ گرہن لگ گیا یا پھر خُدا کی مار
گُتر دِیا ہے اُڑتے پَروں کو اپنے ہی ہاتھوں میں نے
اُڑان بے منزل تھی یا پھر خُدا کی مار
خوابوں کو سَچ کرنے چلی تھی خیال کے سہارے
حقیقت نے جگایا ضمیر کو یا پھر خُدا کی مار
ٹُھکرائی جانے والی شمعٰ تو بُجھتی ہی نہیں
انتظار ہے جو لَوٹے گا نہیں یا پھر خُدا کی مار