مُدّتوں جلی ہُوں جس تپِش کی چاہ میں
وہ دھُوپ سنبھال کے رکھ لی ہے میں نے
جس موڑ پہ نِشاں مِلیں اُن قدموں کے
وہ خاک سنبھال کے رکھ لی ہے میں نے
بکھرتے شِیشوں میں بس گئی ہے صورت
وہ تصویر سنبھال کے رکھ لی ہے میں نے
جہاں پہ سجدہ گر تھی سِتاروں کی مِحفل
وہ ڈَگر سنبھال کے رکھ لی ہے میں نے