شَب بھر چَرچا رہا تیرے دِیدار کا
کہ چاند کی چاہ میں بیٹھا رہا چوکور
اور ستم گر دیکھتا رہا کہ کب بادل
چھَٹیں ہِجر کے اور نہ جانے کب
…رُوبرو ہوں محبُوب اور مُحبّت
کبھی چھنکتی تھی جو پایل اُس کے لَمس سے
مَن اب چاہے بھی تو کھنکتی نہیں پاگل
کہ اُن ہاتھوں کے سُر کو یاد کرتی تو
ہے پر اِنتظار میں ہے کسک کہ نہ جانے کب
…رُوبرو ہوں پازیب اور دھڑکن
رات کی رانی میں سانس لیتا ہےاُس کا وجُود
یہ سَچ ہے تبھی تو خواب اور خُوشبو کا
ساتھ ہے پُرانا پر مُدّت سے بیٹھی ہُوں اُس
سفر کی تلاش میں کہ نہ جانے کب
…رُوبرو ہوں نیند اور کروٹ