قطرہ قطرہ جو بِکھرتاہے
سیلاب سے، اُس دریاۓ دل
کی قسمت بن گئی تھی لکیر
پِہلے سے…بس میں تقدیر کو سمجھ نہیں پائی
شناسائی تھی اُس آغوش
سے پھر بھی ، اِس آنچل کی
بے ساختگی میں تھی مِلاوٹ شاید
پِہلے سے…یہی ایک راز میں جان نہیں پائی
مِلتی رہی اور چاہنے کی
خواہش میں اکثر مگر افسوس
کہ جُدائی طے تھی
پِہلے سے…اِسی سچّائی کو میں جھُٹلا نہیں پائی
ہرجائی نِکلا رقیب ، وفا
کی دیتا تھا جو دُہائیاں
کبھی، شاید انعام تھا
وہ میری بے وفائی کا
پِہلے سے…اِسی انجام کو میں سِہہ نہیں پائی