چھُپتا سورج اور ٹھنڈا چاند
سب کرتے تھے رقص میری
ہتھیلی پر مگر اب نہ کرنیں
چُومتی ہیں ڈالیاں میری نہ
ہی مہتاب دِکھاتا ہے
…جلوہ اپنا
بے تاب اِنتظار کی تمنّا
اور پیاسی آنکھوں میں
تڑپ جگتی تھی کبھی مگر
اب نہ ہی کوئی دستک ہےنہ
ہی قدموں کی چاپ سُناتی ہے
…قِصّہ اپنا
خُشک آنسُو اور مُرجھاۓ پھول
بھرتے تھے جو زخم کبھی دوا
کے نام پر مگر اب تو نہ ہی
مرہَم لگاتا ہے دل اور نہ
ہی گُلستان سجاتا ہے کوئی
…ہمدرد اپنا
مرچُکا تھا بدن خاک
کے سِینے میں دَب کر
کب سے مگر نہ ہی قرار
پایا اور نہ ہی مِلا
…مسیحہ اپنا