کَل کی جو بہار دیکھ نہ پائیں اگر ہم
چلو آج کی خزاں میں جی کے دیکھتے ہیں
زندگی چھِین رہی ہے خُوش گوار پَل
چلو ایک نئی راحت میں اُتر کے دیکھتے ہیں
کیونکہ تھوڑا ہے وقت اور لمحے مُختصِر
چلو نئی رُوتوں میں ڈَھل کے دیکھتے ہیں
بے بسی میں سانس لیتے ہیں بےحِس لوگ
چلو آج پھر یہ بھرم توڑ کے دیکھتے ہیں
وہ تو رُک گیا ہے جیسے تھکا ہُوا مسافر
چلو بے مقصد اُڑان ہم بھر کے دیکھتے ہیں
کیسے جلے اور بُجھاۓ یہ شمعٰ ارمانوں کی
چلو پروانے کو پھر سے اُکسا کے دیکھتے ہیں