اجنبی تھا تھوڑا وہ انجانا بھی تھا
کبھی تھا اپنا تو کبھی بیگانہ بھی تھا
کر نہ پایا جو بے وفائی نامِ وفا پہ
دِلدار نے ایک قرض میرا چُکانا بھی تھا
مِثالِ عشق بنا لا زوالی کے شوق میں
صُوفی بن کے اِس بھِیڑ میں اُسے آنا ہی تھا
جسے پایا اپنے رُوبرو نہ ہو سکا جاویدہ کبھی
طوافِ آرزو کی لَو میں اُسےجَل جانا ہی تھا