سچ ہےکہ کشتیاں جَلا دی ہیں اُس نے
جانے پھر مجھے اِنتظار سا کیوں ہے؟
دُور کر دیا ہے خُود کو اُس کی نظر سے
جانے پھر آنسُو پریشان سا کیوں ہے؟
با خبر ہے رَگ رَگ سے وہ میری اگر
جانے پھر آشنا انجان سا کیوں سے؟
لاتعلّقی میں بھی سانس لیتا ہے مِلن
جانے پھر وقت اوازار سا کیوں ہے؟
کرتی ہے دعویٰ تحریر و نظم وفا کا
جانے پھر ادھُورا عُنوان سا کیوں ہے؟
نفعٰ و نُقصان کے عِوض پایا وقار اپنا
جانے پھر خیال بےلگام سا کیوں ہے؟