دل میں آج بھی وہی
برق سی محسوس ہوتی
ہے جب اُس کا زِکر چھِڑ
جاتا ہے کبھی مِحفل میں
..تو کبھی تنہائی میں
اَب بھی اُس نغمے کی
دُھن پہ رونے لگتی ہُوں
جس کو سُنتے ہی جاگ
جاتے ہیں ارماں کسی
مِحفل میں تو کِہیں
…تنہائی میں
کھِل اُٹھتے ہیں پھُول
تَر ہوتی ہے زمین اب بھی
اُسی طرح ، چھُونے سے
رُوح مِہک اُٹھتی ہےجیسے
کبھی مِحفل میں تو
…کبھی تنہائی میں
آج بھی حِصار میں ہیں
وہ شعر وہ اندازِ بیاں
کہ جن کو سُنتے ہی گُم
ہو جاتے ہیں ہوش کہِیں
مِحفل میں تو کبھی
…تنہائی میں