زرد ہو شاخ یا پھر مُرجھاۓ گُل ہوں
اِختتام پہ پُہنچتے ہیں کبھی نہ کبھی
شُعاعِ ظُلمت ہو یا پھر دن وصل کے
اندھیروں میں ڈھلتے ہیں کبھی نہ کبھی
قرار دے عشق یا پھر جنُون میں ہو رسائی
اذِیّت بن کے برستے ہیں کبھی نہ کبھی
چمکتے جُگنو ہوں یا پھر لِہراتی تِتلیاں
راستے پہ تنہا بھٹکتے ہیں کبھی نہ کبھی
سمندر کرے دیوانہ یا پھر دریاؤں کے دل
موت کے گھُونٹ پیِتے ہیں کبھی نہ کبھی