کیا ہُوا جو آج پھر صُبح ویسی نہیں نِکلی
نئی کِرنوں میں چمک میں ڈھونڈ لُوں گی
بُہت رو لِیا پراۓ درد کے غموں میں بِہہ کر
نئی خوشیوں میں ترنگ میں ڈھونڈ لُوں گی
نہ رُکی ہے زندگی نہ ہی پَل پھیکے رہیں گے
نۓ راستوں میں پھر وہی منزل ڈھونڈ لُوں گی
شمعٰ کا کام ہے جلنا اور پھیلانا روشنی
نۓ آنسوؤں میں پگھلنا میں ڈھونڈ لُوں گی