وعدۂِ وفا کر کے مُکر گیا کوئی
خود ہی اپنے قَول سے پھِر گیا کوئی
آفریں ہے بدل لِیا چولا جس نے
اپنے ہی ہاتھوں ہُوا بے نقاب کوئی
خوشبؤِ حُسن چھُو نہ پاۓ جسے
شِہر مُحبّت کا ویراں چھوڑ گیا کوئی
اِنتہاۓ نا قدری کے اِس عالم میں بھی
دونوں جہاں کی شوخیوں سے گیا کوئی
مزار پہ آتا ہے اکثر پھُول چڑھانے وہ
دُعا میں جس کے نہ تھی شفا کوئی