کاش وہ سمجھ پاتا کہ
عشق اور کاروبار ہیں دو
الگ دُنیاؤں کے جزیرے
افسوس کہ اُس نے پرکھا
میری مُحبّت کو اُمیدوں کے
ترازُو میں۔۔۔
کاش اُسے دِکھائی نہ دیتا
میرے وجود کے آر پار کبھی
افسوس کہ میرے خلُوص کو
اُس نے جانچا وفا کے
ترازُو میں۔۔۔
کاش وہ چھُو پاتا نرم
کِرنوں کو، میری آہوں کی
مُلائم آرزوؤں کو، مگر افسوس
کہ میرے آنسوؤں کو تولا اُس
نے خود غرضی کے
ترازُو میں۔۔۔
کاش کہ پرواہ نہ کرتی اُس
ستم کا جس کے ساۓ تلے
کُچلا اُس نے میری خواہشات
کو، افسوس کہ میرے پاگل پن
کو سراہا اُس نے شوق کے
ترازُو میں۔۔۔