دُھوپ سُرخ اور میں
رہتے ہیں ساتھ ساتھ
کبھی پِگھلتے تھے جس
تپش میں جل کر اب
جھُلستے ہیں ساتھ ساتھ۔۔۔
جنہیں قُربت کی نرم
چھاؤں میں مِلتی تھی
پناہ اب وہ ہِجر کے کانٹوں
پہ سوتے ہیں ساتھ ساتھ۔۔۔
برستے تھے لمس کی حِدّت
سے جو اَشک کبھی کبھی
اب چھلکتے ہیں یاد میں
کسی کے ساتھ ساتھ۔۔۔