اُسے آرزُو ہے ٹھِہرتی جھیل کی
میں تو اُس کے عکس کی دیوانی ہُوں
عرش لیتا ہے پناہ اُس کی آغوش میں
اور میں اُس کے دِیدار کی دیوانی ہُوں
اُس کو رِہنا ہے بن کے کائنات کا
مگر میں اُس کے محل کی دیوانی ہُوں
اُس کے دل میں انگڑائی لیتا ہے ساحل
میں اُس مچلتی لِہر کی دیوانی ہُوں
غرور ہے جس شُہرت و رعنائی کا اُسے
میں اُس خُود اعتمادی کی دیوانی ہُوں
کریں ستارے شکوہ اُس کی اداؤں کا
مگر میں اُس بے رُخی کی دیوانی ہُوں
مُحبّت میں جسے منظور ہے درد و فُرقت
میں نامُراد اُس خسارے کی دیوانی ہوں