ہُوئی تھی رات ابھی ابھی آدھی جواں
کہ چاندنی نے نِہلانا شُروع کر دیا
تھے چشم تَر حسرتوں کی لَو میں
کہ آہٹوں نے دھڑکانا شُروع کر دیا
سو گۓ تھے خواب الودعٰ کہتے ہی جو
کہ خواہشوں نےاُکسانا شروع کر دیا
چمن پُر رنگ تھا کانٹوں کی قطاروں سے
کہ گُلشنِ بدن کو مہکانا شروع کر دیا
زخم جو بھرا تھا زہرِ صبر پِیتے ہی
کہ قاتل نے دوبارہ آزماناشروع کر دیا
سوچتی رہ گئی کہ شمع کہاں گُم ہُوئی
کہ پتنگے نے پھرچکّر لگانا شروع کر دیا