رات گۓ تک وہ میرے سرہانےبیٹھا رہا
شاید اِنتظار تھا اُسے اِک نئی کہانی کا
اور میں لیٹی رہی چُپ چاپ تَکتے اُسے
کہ کہیِں چھِن نہ جائیں پَل آنکھ لگتے ہی
کبھی اُس کے لمحے میرے چاند کا پتا پُوچھتے
کبھی سِتاروں پہ ٹھہرتا اُس کا قافلہ دیکھا
وہ کیا جانے کافر اُجڑے دِنوں کا حاصل
میرے خلوص کی کیا قیمت ادا کی تُو نے ظالم
ایک دل ہی تھا جو تُجھے سونپ کے چل دی
اُسے بھی تُو نے اپنے خوابوں کا مدعویٰ سمجھا
یہ پِگھلتےدل ہی تھے جن کو سمجھا تُو نےکھِلونا
میں شمعٰ جلاتی رہی اپنی ذات کو مِٹا کر بے مُروّت