کبھی زِینت تھی وہ آنکھیں
میرے آئینے کی۔۔۔
خُدا جانے اب کس چہرے
کی دھُوپ سجاتی ہونگی۔۔
کبھی اُس کے خوابوں میں
سچ کروٹ لیتے تھے میری
آغوش کے۔۔۔
خُدا جانے اب کن سرابوں کے
پیچھے بھاگتا ہوگا وہ۔۔
کبھی وہ چونک جاتا تھا
میری اِک صدا پہ۔۔۔
خُدا جانے اب کس پُکار پہ
وہ تِلملا جاتا ہوگا۔۔
کبھی چُھپا لیتا تھا بانہوں
کے مظبُوط دائرے میں مُجھے۔۔۔
خُدا جانے اب کون سی گرفت
اُس کا نشہ پُورا کرتی ہوگی۔۔
کبھی وہ میرے حِصار میں
آنسُو بہاتا تھا۔۔۔
خُدا جانے اب کون اُس کے
جذبات تَر کرتا ہوگا۔۔
کبھی وہ کہتا تھا کہ
مُحبّت ہے اُسے بے پناہ
مجھ سے۔۔۔
خُدا جانے اب کون سا نیا
عشق اُس کی قید میں سزا
کاٹ رہا ہوگا۔۔