کر گئی ہیں راتیں کئی
گُناہ یہی سوچ کے ڈرتا
ہے دل کہ اب نہ ہی کوئی
خواب کرے گا دل بدنام اور
نہ ہی بھرے گا دامن اپنا
کانٹوں سے یہ۔۔۔
ہاۓ! مگر کیا کِیجیۓ اِن
بے باک خواہشوں کا جن
کے شاداب بدن بھیس بدل
کر راتوں کو اوڑھ لیتے ہیں
ہِجاب اور کر بیٹھتے ہیں
من مانیاں کئی۔۔۔۔
یہ جھُوٹے رنگ وہ بدصورتی
میں لِپٹےشوخ کفن جن کی
مَیّتوں سے اَتی ہے مِہک جُھلسے
ہُوۓ پھُولوں کی۔۔۔
کیوں وہ اِن کاغذی ورقوں
میں رنگ بھرنے کی کوشش
میں لگے رہتے ہیں ہر پَل ؟
اُن پیمانوں کے بد مست جام
کر تو دیتے ہیں پیاس ہری
لیکن چھوڑ جاتے ہیں ایک ہی گھُونٹ
کے اثر ہونے تک۔۔۔
یہ نشہ یہ پیاس اور وہ
کسک، بس یہی زہر ہے
جس کے نَس نَس میں اُتر
جانے سے فریب کی دُنیا
جنم لیتی ہے۔۔۔
سراب کی دُنیا۔۔۔۔۔
Like this:
Like Loading...