چلو پھر پیڑِ راہ گُزر نِصف بانٹ لیں
کُچھ سرُور بقا کا رنج و غم بانٹ لیں
سیاہ رات کے نیم جواں فسانے اور
ماضی کے معصوم ناکردہ گُناہ بانٹ لیں
شمسِ لمس و تپِش میں چُور سُنہری جسم
اِس رنگِ خوشبو میں دُھلے جذبات بانٹ لیں
جو تھی پرائی خوشی منسُوب اُس کے نام سے
وہ مشترکۂِ احساس و شناخت بانٹ لیں