رات ایک ایسی قبر ہے جہاں کی تنگ دستی اور سنٗاٹے اپنے ہی کیۓ گۓ گُناہوں کی گواہی دیتے ہیں۔ کبھی خواہشوں میں لِپٹے خود غرضی کے جھُوٹے دعوے تو کبھی سَچ کے لحاف میں پوشیدہ فریبی مخملی جال۔ یہ سب ڈراتے ہیں مُحبّت کا لِبادہ اوڑھے۔ راتیں اپنے ساتھ اکثر خوف کی ریشمی پوشاک پہنے ہمیں لُبھانے آتی ہیں۔ ہم کبھی اِن کی دغاباز چالوں سے لُطف اندوز ہوتے ہیں تو کبھی اِن سے بھری خوفناک اداؤں میں پھنستے بھی ہیں۔
جب آدھی شب کے طُوفانی جنون کا دیدار ہوتا ہے تو اندازہ لگایا جاتا ہے کہ خیالات کا تجسّس اور حقیقت کا تصوّر آخر ہے کیا۔
یہ ڈر اور یہ حیران کُن تجربہ محض ایک اتفاق نہیں مگر سَچ کے دائرے میں قید وہ المیّہ ہے جسے سمجھنے میں برسوں لگ جائیں۔ انسان عُمر کے اُس حِصّے میں داخل ہو جاتا ہے جہاں سے اگلا قدم موت ہے۔
نِصف پہر کی کاٹتی ہُوئی رات بس ایک اِشارہ ہے اُن چاہتوں کی طرف جہاں صرف مایوسی ہی گھیرا ڈال سکتی ہے۔ یہی داستان ہے خوفناک راتوں کی اور یہی سچّائی گُمراہی میں کیۓ گُناہوں کی۔۔
اور کوئی فلاح نہیں۔۔۔۔