وہ آنکھیں میرے روز مرّہ کے بھاگ دوڑ میں پیش پیش ہیں۔ کبھی وہ ہلکی سی شعاع بن کر میرے صحن کی دھوپ سجاتی ہیں تو کبھی بارش کی گرجتی بُوندوں میں اپنا عکس چھوڑ جاتی ہیں۔ نا ممکن ہے اِن حصاروں سے پیچھا چھُڑانا۔ جب آدھی رات کی بے چینی ستانے لگے تو وہ آنکھیں بُلاتی ہیں ماضی کی تصاویر کو پھر سے تازہ کرنے میں۔ جب کبھی گُزرتی ہُوں اُن شاہراؤں سے جہاں کبھی ہم مِلے تھے ، وہ مجھے مِلتی ہیں کبھی مسافر بن کے تو کبھی رِہ نُما بن کے۔
اکثر جب خزاں کے موسم پہ عروج ہوتا ہے تو وہ آنکھیں مجھ سے اُن پت جھڑ کا حساب مانگتی ہیں جہاں کبھی ہم نے ایک ایک لمحے کو ٹُوٹتے دیکھا تھا۔ جب سردیوں کی پِیلی صُبح گھڑی کے نو بجاتی تھی تو میرا انتظار اور بھی بیتاب ہو جاتا تھا کہ کب اُن نظروں کو خود میں جذب ہوتا پاؤُں گی میں۔ میرے جنون کا صبر اور میری انگلیوں میں بہتا میٹھا درد اور میٹھا ہوتا چلا جاتا تھا۔
جانے کتنے عرصے بعد بھی وہ آنکھیں میرے ساتھ ہیں۔ جہاں جہاں بھی جاؤُں ، وہ مجھ پہ اپنی نظریں جماۓ ہیں۔ کسی راستے بھی چل نِکلوں کہیِں بھی قدم جمنے کگیں، وہ دلکش آنکھیں میرے وجود کا آئینہ بن چُکی ہیں۔ ے شک وہ میرے ساتھ نہیں مگر میری روح کے گوشے گوشے میں اُن کا بسر ہے۔ حقیقت کو جھُٹلایا نہیں جا سکتا۔
وہ ہیں یہیں کہیِں۔ میرے رہنے میں ، میرے سہنے میں ، میرے راستوں میں یا شاید میری منزل میں۔