بِکھرتے شِیشے

image

کل پِھر تُمہیں نظریں ڈُھونڈتی رہیِں

دَر پہ دستک نے چونکا دِیا ہمیں

ایک آس کی کروٹ سے اُدھار جو لی تھی

اُس جُھوٹی خوشی نے ہنسا دِیا ہمیں

عَجب دوہرے خیال سرکش کرتے رہے

خاموش صداؤں نے ڈرا دِیا ہمیں

شاید نہ آؤ گے یہ حقیقت کھُلی جب

اُداسی کے بھنور نے رُلا دِیا ہمیں

شمعٰ

image

اُس رات جب ہم بیٹھے تھے

نہ جانے کیا بات ہُوئ

کُچھ آہٹ کی آواز ہُوئ

کُچھ کانوں میں سرگوشی تھی

بارِش کی بُوند سے مِہک گئ

شاید کُچھ کِہنے کو ٹِھہر گئ

تُمہاری آنکھ کا وہ سِتارہ

نہ جانے کونسی فضا تَھم گئ

جیسے کوئ دستک دینے لگی

اُٹھو ! ڈُھونڈو اُسے تم

جو ایک نئ روشنی دِکھا تا ہے

جِسکے قدموں میں بارش ہے

اُسکے ہاتھ کی گرمی سے

وہ لمحہ پِگھلتا ہے

کیسے ہم نے دیکھا تھا

جب ایک شمٰع جلائ تھی

معصُوم حسرت

image

دُور ایک سڑک راستہ انجان مگر پتھرِیلا

ڈُھونڈتی یہ نظر ، بچپن کا سفر طے کرتے کرتے

دھندلا سایہ گہری نِگا ہیں اور اندازِقتل

کھوجتی یہ نظر ، بچپن کا سفر طے کرتے کرتے

جادؤِسراب میں چُھپے گِہرے نظر کے اُجالے

دیکھتی یہ نظر ، بچپن کا سفر طے کرتے کرتے

خواہِشوں کی باہوں میں جُھولتی آرزو ہو کوئ

چاہتی یہ نظر ، بچپن کا سفر طے کرتے کرتے

مِہکتے آنچل میں لِپٹی تمنّا ہے وہ تو

ترستی یہ نظر ، بچپن کا سفر طے کرتے کرتے

!ہاۓ کاش

image

 

کاش تیری راتیں میرے خیال سے منسُوب ہوں

کیونکہ میرے خوابوں میں صِرف تُو جگتا ہے

کاش تیری صُبحوں پہ صِرف میرا راج ہو

کیونکہ میرے سَویروں پہ فقط تیری سَلطنت ہے

کاش تیری نظریں صِرف میری اور اُٹھیں

کیونکہ میری نِگاہیں صِرف تُجھےکھوجتی ہیں

کاش اِسی موڑ پہ تُو مِل جاۓ مُجھے

کیونکہ یہ گلیاں تیری آہٹ کی مُنتظِر ہیں

کاش تیری راہیں کبھی میری منزل بنیں

کیونکہ اِنہی راستوں کو اپنا آشیاں بنا لیا ہے

کاش مُجھے یاد کرکے تیری تڑپ جواں ہو

کیونکہ تُجھے یاد کرکے میری کسک ٹُوٹتی رہتی ہے

جل پری

image

سُورج کی شوخ کِرنوں سے

کِناروں پہ بِکھرنے دو

شاموں کے چمکنے سے

شِیشوں کو پِگھلنے دو

مست ہوا کے ترّنُم سے

زُلفوں کو اُلجھنے دو

سمندر کی اِن لہروں سے

جل پری بن کے اُترنے دو

بس تُم میرے پاس رہو

image

جیسے سمندر میں گِہرائ ہو

جیسے موج کسمسائ ہو

جیسے دُور کوئ طُوفان ہو

اور دھنک کا آسمان ہو

بس تُم میرے پاس رہو

بس تُم میرے پاس رہو

 

جیسے چاندنی کی ٹھنڈک ہو

جیسے بادلوں پہ دستک ہو

جیسے پھُولوں کی رنگت ہو

اور سِتاروں جیسا جہاں ہو

بس تُم میرے پاس رہو

بس تُم میرے پاس رہو

 

سِسَکنا

image

تَنگ آ چکی ہے میری رُو ح سِسکتے سِسکتے

اُکھڑتی سانسوں میں بے بسی چھُپا ۓ چُھپاۓ

لَڑتی ہوں ہر شب اپنی ہی تقدیر سے میں

تھکے ہا تھوں میں لَکیریں چُھپاۓ چُھپاۓ

جلے ہے اِک اِک قطرہ میرے خون کا اب تو

پیاسے ہونٹوں میں شبنم چُھپاۓ چُھپاۓ

بُہت درد مِحسوس کرتی ہُوں جسم وجاں میں ہر سُو

ادھوری مُحبّت میں تُم کو چُھپاۓ چُھپاۓ

سَنّا ٹے

image

چھَلنی دِل سے بڑی ٹِیس اُٹھتی ہے

نادان دھڑکن آہستہ آہستہ رُکتی ہے

بے زار سفرِخیال کی جانِب بڑھتے ہوُۓ

ایک سُنسا ن کھَنڈر کی طرف راہ مُڑتی ہے

شور برپا ہے خاموشیوں کے ڈھیر تلے

دبے آنسوؤں کے قا فلے میں رات ڈھلتی ہے

سُنہری بادل میں لِپٹی تقدیر ہو جیسے

ما تھے پہ مہتاب بن کے چمکتی ہے

رُوکھی رُوح کے گھنے جالے ہیں چار سُو

خالی مکاں کے  جھرونکے سے آرزو ٹپکتی ہے

مُختصر سفر

image

شامِ زِندگی ڈھلتی جا رہی ہے اب تو

سفر میری جُستجو کا شُروع اب ہُوا تھا

شبِ فُرقت کی گِرفت میں ہیں آہیں میری

سفر میری قُربت کا شُروع اب ہُوا تھا

طوافِ آرزو کے نِشا ں مدھم ہوئے جا تے ہیں

سفر میری عقیِدت کا شُروع اب ہوُا تھا

آزمائشِ عشق کی با زی ما ت دیتی نظر آتی ہے

سفر میری جِیت کا شُروع اب ہوُا تھا

حرارتِ شمعٰ فنا ہونے لگی ہے اب تو

سفر میری رُوحانیّت کا شُروع اب ہُوا تھا

ا یسا کیوں ہے؟

image
Enter a caption

تِشنگی کیا ہے آرزو کی چاہ کِسے

تڑپے کون سِمٹے کون ایسا کیوں ہے

آہ کا اثر یہ سُرمئ شام ہو

جنوُنی کیفیت ایسا کیوں ہے

زنجیر کی بندش یہ چھنکتی پایل

شور کی لرزش ایسا کیوں ہے

صُبحیں روشن راتیں چاندنی

بے وقت سُلگنا ایسا کیوں ہے

سَحر کی قید اور حِصار کا نشہ

لُطف اندوز ہونا ایسا کیوں ہے

تِتلیوں سی پھڑپھڑا ہٹ یہ بے زاری

قوسِ قزح سا رنگین  ایسا کیوں ہے

کوئلے سی جلے برفِ تاثِیر

اِتنی خُماری کا عالم ا یسا کیوں ہے

عِشق کی آڑ میں قتل ہونا

جینے میں ہر پل مر نا ایسا کیوں ہے