آ ج

تُمہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے جو یاد سجائی تھی

ہتھیلی کے چراغ سے

اُس محفل کی کشش اب تک

میرے آ نگن پہ روشنیاں بکھیرے ہے۔۔

یہ کیفیت ہے اُس موسمِ بہار کی

جہاں اکثر میری پھیکے لمحے

سُہانی شبوں میں بدلا کرتے تھے۔۔

جب محبوب کی دنیا میں سویرا

میری نظروں سے ہوتا تھا مگر

اندھیرا اُس کے خوابوں پر اختتام

پاتا تھا ، تب لفظوں کی اُڑان

میں رقص کرتے تھے فقط ہم۔۔۔

آ ج کا دن اُن بِصرے لمحوں میں اب بھی

اُس پھول کی طرح تازہ ہے جو

شاعری کی کتاب میں سجاتے ہی

مُرجھانا بھول جاتا ہے۔۔

آ ج بھی وہ ستارے وہیِں پر ہیں

آ ج بھی شمس ویسے ہی انگڑائیاں لیتا ہے

اب بھی اُس کی شربتی آ نکھوں کا

نشہ پُورا ہے۔۔

وہ لمس ادھوری کسک دبی خواہش

سب اُس جھُرمٹ کی شناسائی سے

بندھے ہیں

جہاں کبھی ہماری ڈوریں اٹکی تھِیں۔

کئی بار لکھا وہ خط تُمہارے نام

جس کے عنوان میں سوچا کہ تمہیں

پیغامِ اُلفت بھیجوں مگر

یہ قلم کی رفتار میرے کاغذ کا

سِینہ نا چاک کرسکی۔۔

کہ کہیِں برسوں کی آ شنائی اور

صدیوں کی بے رُخی میں سمٹ

کے میرے آ نچل کو میلا نہ کردے

تو میں رُک گئی۔۔

نہ جانے یہ نظم ہے کہ تحریر

شاید کبھی نہ سُلجھنے والی زنجیر؟

تاریخ دُہراتی ہے قصے

کبھی تمہاری مناسبت سے تو

کبھی میری آ نکھ سے۔۔

کیوں کرتی ہے دستک میرے کِواڑ پہ یہ؟

درد عشق آنسو اور زندگی

میرے دوست ہمنوا ہیں سب۔۔

تُم تو اِن سب سے آ شانا نہیں نا؟

وہ موج بن کر اُتر گیا ہے

میرے سمندر میں۔

کبھی لگتا ہے کھو ہی نہ جاۓ

گہرائی کے اُس بھنور میں

جہاں جوش اُبھرتا بھی

شدت میں ہے اور ڈوبتا بھی۔

آ زمائش

یہ خواب تھا یا پھر دستک

بِسری آ ہٹ کی یا پھر

سے کوئی اِشارہ اُس کی جانب۔۔

کل رات عجب ہُوا

جو نہیں ہونا چاہیۓ تھا

وہ ہُوا۔۔

میں بیٹھی تھی سر ہانے

اور قلم تھا ہاتھ میں

تب نیند کے پایئدان پہ

وہ آنکھ تھی رُوبرو اور

پہلو سنگ وہ ہاتھ؍ جن کی

جدائی اب داستان بن کے

رہ گئی ہے فقط۔۔

وہ پھر سے نۓ افسانے

دوہرانا چاہتا تھا شاید۔

کُچھ دُور تھا؍ سامنے آنا

چاہتا تھا شاید۔

اُس کا لمس وہ خوشبوُ

سونپ کر مُجھے اِک بار پھر

آزمانا چاہتا تھا شاید۔۔

یہ خواب ہے وہ حقیقت تھی۔

تب بھی سب خواب سا

لگتا تھا اور آج یہ خواب

سچ سا لگا جیسے اُس نے

پُکارا ہو مجھے اور میں آزاد

فاختہ بن کر اُڑنے کے لیۓ

تیار ہُوں ایک بار پھر سے۔۔

اب بھی وہ جراثیم میرے

رگ رگ میں پیوست ہیں مگر نہیں۔۔۔

مجھے رکھنا ہے خود کو مظبوط

تاکہ خواب ؍ خواب ہی رہیں

گر حقیقت بن گۓ تو۔۔۔۔

دردِ مُشترک

چلو پھر پیڑِ راہ گُزر نِصف بانٹ لیں

کُچھ سرُور بقا کا رنج و غم بانٹ لیں

سیاہ رات کے نیم جواں فسانے اور

ماضی کے معصوم ناکردہ گُناہ بانٹ لیں

شمسِ لمس و تپِش میں چُور سُنہری جسم

اِس رنگِ خوشبو میں دُھلے جذبات بانٹ لیں

جو تھی پرائی خوشی منسُوب اُس کے نام سے

وہ مشترکۂِ احساس و شناخت بانٹ لیں

سراب

کر گئی ہیں راتیں کئی
گُناہ یہی سوچ کے ڈرتا
ہے دل کہ اب نہ ہی کوئی
خواب کرے گا دل بدنام اور
نہ ہی بھرے گا دامن اپنا
کانٹوں سے یہ۔۔۔
ہاۓ! مگر کیا کِیجیۓ اِن
بے باک خواہشوں کا جن
کے شاداب بدن بھیس بدل
کر راتوں کو اوڑھ لیتے ہیں
ہِجاب اور کر بیٹھتے ہیں
من مانیاں کئی۔۔۔۔
یہ جھُوٹے رنگ وہ بدصورتی
میں لِپٹےشوخ کفن جن کی
مَیّتوں سے اَتی ہے مِہک جُھلسے
ہُوۓ پھُولوں کی۔۔۔
کیوں وہ اِن کاغذی ورقوں 
میں رنگ بھرنے کی کوشش
میں لگے رہتے ہیں ہر پَل ؟
اُن پیمانوں کے بد مست جام
کر تو دیتے ہیں پیاس ہری 
لیکن چھوڑ جاتے ہیں ایک ہی گھُونٹ 
کے اثر ہونے تک۔۔۔
یہ نشہ یہ پیاس اور وہ
کسک، بس یہی زہر ہے
جس کے نَس نَس میں اُتر
جانے سے فریب کی دُنیا
جنم لیتی ہے۔۔۔
سراب کی دُنیا۔۔۔۔۔

آدھے دن کا سفر

یہ سفر ویسا نہیں کہ چل دِیۓ

اور پلٹ کے دیکھ بھی نہ سکے۔۔

یہ کئی برسوں کی مُسافت ہے جس

پہ پاؤں کبھی تھکتے تو کبھی

ٹوٹتے ہیں ۔۔۔۔

کہِیں پہ ہار جاتی ہے لگن تو کبھی

شکست دیتے ہیں دل جن

کی جھُوٹی وفائیں اور نا قدری میں

چُور جسم بھُول جاتے ہیں اپنی منزل۔۔۔

بھٹکی ہُوئی راہوں کے شاداب بدن

گُمراہ تو کرنا چاہتے ہیں لیکن

اب اُن کا گُزر ہوتا نہیں یہاں کے

در و دیوار کا۔۔۔

نہ چاہتے ہُوۓ بھی غلط موڑ اور

انجان راستے اپنے سے کیوں لگتے

ہیں کبھی؟

یہ سفر یہ راستہ وہ موڑ اجنبی

بھی ہے مگر لگتا دلفریب ہے۔۔۔

سمندر سا جوش چٹانوں سی مظبُوطی

ہو بھی اگر تو منزل پھر بھی آخر

لا پتہ ہی ہے۔۔۔

تب سفر بنتا ہے پُر کشِش اور لاجواب۔۔۔

 

 

شاید کبھی؟

اُس کے احساس سے کبھی تو چھُو کے

گُزرتی ہونگی میری آنکھیں۔۔

اندھیرےکمرے میں جب وہ شمیں

جلاۓ بیٹھتا ہوگا۔۔

کوئی مُسکراہٹ چِیر دیتی ہوگی

اُس کے ویراں پیمانے کو۔۔

اکیلے میں جب اُسے یاد آتی ہوگی

میرے شوق کی بے لگام چاہت۔۔

وہ پھر جھٹ سے جھٹک دیتا ہوگا

بے خیالی کے نا کردہ گُناہوں کو۔۔

ستاتے ہونگے جب اُسے وہ ادھورے دن

وہ غروُب ہوتی شبیں۔۔

چُھپا کے غم اپنا کر لیا کرتا ہوگا

دل کو راضی یُونہی کبھی۔۔

کبھی نِصف پہر کی سیاہی جگا دیتی

ہوگی اُس کی مِیٹھی نیند کو

کہِیں نیم خواب تو کہِیں محظ خیال

اُس کے نرم ہاتھوں کی گرمی

چُراتے ہُوں گے۔۔

چُپکے سے پڑھ نہ لے اُن پیاسی

آنکھوں کو کوئی جن سے کبھی

شعر تو کبھی غزلیں لِکھا کرتی تھی۔۔

اب وہاں پہ صرف سرد راکھ

جلا کرتی ہے

اور کُچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔

چراغ

جن کی کشش سے فروزاں ہیں چراغِ دل

وہ مِہکش آنکھیں میرے دل کا مرکز ہیں

جن کی تبسم سے بیاں ہو پیغامِ وفا

وہ دلکش آنکھیں میرے حُسن کی زینت ہیں

جن کی چمک بھردے چہرے میں سُرخی

وہ مِہکش آنکھیں میرے وجود کا حِصّہ ہیں

نامُراد شخص

C5FC4F91-67E5-4568-82C7-FA969A837CFCویسے تو شامیں ڈھیر ہوتی ہیں

محبوب کی ذُلفوں تلے مگر مجھے

لُوٹا ہے دنوں کی کڑکتی دھُوپ نے۔۔

ویسے تو اکثر لمس کی جُدائی

کر دیتی ہے دیوانہ مگر مُجھے

پاگل بنایا ہے قُربت سے لِکھّے

افسانوں نے۔۔۔

ویسے تو رنگ بھر دیتے ہیں

زندگی میں پیاس اور سمندر مگر

مجھے سیراب کیا ہے صحرا

کی تپتی ریت نے۔۔۔

ویسے تو فلاح پا جاتاہے عشق

پایۂِ تکمیل ہوتےہی مگر مُجھے

مِلا ہے ادھورے صفحے کا

ایک ناکام اِنسان۔۔۔

 

سِمٹتی دھُوپ

362E97E6-BCE2-4D0E-BF07-99A4D72F8C9D

کبھی زِینت تھی وہ آنکھیں

میرے آئینے کی۔۔۔

خُدا جانے اب کس چہرے

کی دھُوپ سجاتی ہونگی۔۔

کبھی اُس کے خوابوں میں

سچ کروٹ لیتے تھے میری

آغوش کے۔۔۔

خُدا جانے اب کن سرابوں کے

پیچھے بھاگتا ہوگا وہ۔۔

کبھی وہ چونک جاتا تھا

میری اِک صدا پہ۔۔۔

خُدا جانے اب کس پُکار پہ

وہ تِلملا جاتا ہوگا۔۔

کبھی چُھپا لیتا تھا بانہوں

کے مظبُوط دائرے میں مُجھے۔۔۔

خُدا جانے اب کون سی گرفت

اُس کا نشہ پُورا کرتی ہوگی۔۔

کبھی وہ میرے حِصار میں

آنسُو بہاتا تھا۔۔۔

خُدا جانے اب کون اُس کے

جذبات تَر کرتا ہوگا۔۔

کبھی وہ کہتا تھا کہ

مُحبّت ہے اُسے بے پناہ

مجھ سے۔۔۔

خُدا جانے اب کون سا نیا

عشق اُس کی قید میں سزا

کاٹ رہا ہوگا۔۔