سِمٹتی دھُوپ

362E97E6-BCE2-4D0E-BF07-99A4D72F8C9D

کبھی زِینت تھی وہ آنکھیں

میرے آئینے کی۔۔۔

خُدا جانے اب کس چہرے

کی دھُوپ سجاتی ہونگی۔۔

کبھی اُس کے خوابوں میں

سچ کروٹ لیتے تھے میری

آغوش کے۔۔۔

خُدا جانے اب کن سرابوں کے

پیچھے بھاگتا ہوگا وہ۔۔

کبھی وہ چونک جاتا تھا

میری اِک صدا پہ۔۔۔

خُدا جانے اب کس پُکار پہ

وہ تِلملا جاتا ہوگا۔۔

کبھی چُھپا لیتا تھا بانہوں

کے مظبُوط دائرے میں مُجھے۔۔۔

خُدا جانے اب کون سی گرفت

اُس کا نشہ پُورا کرتی ہوگی۔۔

کبھی وہ میرے حِصار میں

آنسُو بہاتا تھا۔۔۔

خُدا جانے اب کون اُس کے

جذبات تَر کرتا ہوگا۔۔

کبھی وہ کہتا تھا کہ

مُحبّت ہے اُسے بے پناہ

مجھ سے۔۔۔

خُدا جانے اب کون سا نیا

عشق اُس کی قید میں سزا

کاٹ رہا ہوگا۔۔

لا تعلّقی

781E26D1-7775-41E7-ACA8-5D4D72E81A81

اُس شہر سے اب گُزر

نہیں ہوتا

کبھی جہاں آنا جانا

تھا ہمارا اکثر۔۔

کبھی جہاں سُرخ دھُوپ

چومتی تھی بدن سبز چمن کے

اور مُلائم لمس جلتے

بُجھتے رہتے تھے۔۔

اُس شہر سے اب گُزر نہیں ہوتا

جہاں کی صبا میں تھی

خوشبو عِطر سی اور

لبوں کی پیاس پر جوبن

تھا کمال سا

تب گیلی مِٹّی  پڑتی تھی

پھُوار بن کے یوں۔۔۔

اُس شہر سے اب گُزر نہیں ہوتا

کبھی جہاں کے لمحوں سے

جُڑے تھے میری کسک کے

سلسلے اور دل کی سڑک پہ

رفتار رقص کرتی تھی

دھڑکن بن کے۔۔۔

اُس شہر سے اب گُزر نہیں ہوتا

جہاں اُٹھاتے تھے ناز کلیوں کے

گُلشن اور جھُکے جاتے تھے

سَر عشق کے دربار میں۔۔۔

اُس شہر سے اب گُزر نہیں ہوتا

جہاں آنا جانا تھا ہمارا اکثر۔۔۔