سمندر کا شور

وہ رات عجیب تھی۔ سمندر کا شور ٹھاٹھے مارتا ہُوا اور وہ آ نکھیں جن کی وسعت مجھے اپنا اسیر کیۓ ہُوۓ تھی۔ اُس شور میں مجھے اُس کے پیمانے دِکھائی دے رہے تھے۔ کتنا عرصہ بِیت گیا مگر اُس کی محبت آج بھی مجھے گھیرے ہے۔ اُس کا رنگ اُس کی کشش آ ج بھی میری دیوانگی کا تعاقب کرتی ہے۔ جب میں اُن لہروں کو دیکھ رہی تھی تو ایسا لگا کہ جیسے وہ سحر انگیز آ نکھیں میرا پیچھا کر رہی ہیں۔ اُس شور میں اُن کی وسعت دِکھائی دے رہی تھی۔ کئی خیال اُن آ زاد تمناؤں کو اُجاگر کر رہے تھے جہاں کبھی میرے دل کی لہروں سے طوفان اُٹھا کرتے تھے۔ میرے دل کی دھڑکنیں شدت کی تیزی اختیار کر رہی تھیں۔ وہ آ نکھیں اور اُن کے پیمانے میں ناپ سکتی تھی سمندر کے گہرے پیالوں کے ساتھ۔

وہ پاگل پن سا شور اور خماری سے بھرپور نشہ۔ دونوں ہی مجبور تھے دل کے ہاتھوں۔ عشق دل اور جنون اُسی شور کی مانند ہے جس کی عادت اور ضد ایک ایسے درد کو دعوت دیتا ہے جس کی دوا نہیں۔

عشق کے سفر میں

کبھی رات کو سورج کی شعاؤں سے جلتے دیکھا ہے؟ یہ وہ آ گ ہے جو لافانی خواہشوں کا سہارا بنتی ہے- اِس کی تاثیر میں کئی شعاؤں کی گرمی ہے- محبت اِس حرارت کی شعاع ہے جو کبھی مدھم نہیں پڑتی، کوئی شب کوئی دن کا اُجالا اِس کو ماند نہیں کر سکتا۔کئی سال بیت گۓ اُس کا دیدار کیۓ مگر محبت ابھی بھی قائم ہے۔ یک طرفہ عشق کا بھی عجب نشہ ہوتا ہے۔ نہ ہی کوئی اُمید اور نہ ہی کسی قسم کی غلط فہمی۔ بس خوش فہمی ہی رہتی ہے۔ عشق تو ہوتا ہی ایک طرف کا روگ کیونکہ آ پ کو اندازہ تو ہوتا ہے کہ آ پ کے ہاتھ خالی ہی رہ جائیں گے۔

ہر روز تقریباً وہ خواب کا در کھٹکھٹاتا ہے۔ اُس کی آ سیرزدہ نگاہیں اور پُرکشش آ واز میر ے صبر کو آ زماتے ہیں۔ بہت سال گزر گۓ مگر وہ اب تک میرے وجود میں زندہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے اُسے کئی بار مگر احترام کی چادر نے ڈھانپ دیۓ میرے بے باک خیالوں کے پرندوں کو جو پھر سے اُڑنا چاہتے تھے۔ عشق صرف احترام کی بانہیں تھامنا جانتا ہے۔ وہ آ نکھیں ہر دم میرا پیچھا کرتی ہیں۔ وہ یہیں ہیں۔ میرے آ س پاس میری سانسوں میں۔

کتنے سال گُزر گۓ مگر وہ اِدھر ہی ہے۔ میرے پاس میرے سامنے۔ کبھی نظر آ بھی جاۓ تو نظر انداز کرنا پڑتا ہے کیونکہ وقت اور حالات کا یہی تقاضا ہے۔ ہم سب اپنی خواہشات کو مار کر جیتے ہیں چاہے زندگی ایک ہی بار مِلے۔ کیونکہ ہم خود غرض لوگ نہیں۔ ہم سے مُنسلک بہت سے رشتے ہیں جو ہمارے اپنے ہیں۔ بے شک اُنہیں ہماری پرواہ نہیں مگر ہمیں ہے کیونکہ سچی محبت اِسی کا سبق ہمیں پڑھاتی ہے ساری زندگی۔ کوئی ایسا دن ایسی رات نئیں جب وہ میرے خیالوں کے سفر میں نہ ہو۔ کتنے سال بیت گۓ مگر وہ آ ج بھی رہتا ہے میرے دل کے مکان میں ایک حسین مور بن کے جس کے پر کھُلیں تو میرا آ نگن رنگین ہو جاۓ اور آ سنو گرے تو ماتم کا سمع ہو۔ عشق ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ہم ختم ہو جاتے ہیں مگر جذبہ نہیں۔

افسوس کہ سمجھنے میں پوری عمر گُزر جاتی ہے اور جب ہوش آ تی ہے تو سواۓ پچھتاوے کے کچھ نہیں رہتا۔

اِسی کو تو عشق کہتے ہیں۔

خوابوں کی شدت

ویسے تو یاد یں ایسے ہیں جیسے پرندوں کے پروں کو چُومتی ہوایئں۔ اِن کے دم سے ہی زندگی کی گردش بڑھتی رہتی ہے۔ کبھی کوئی ایک لمحہ نہیں ایسا جو اُس کی یاد سے خالی جاۓ بھلے وہ پاس نہ بھی ہو۔ اکثر سکون رہتا ہے دل کواور دنیاوی کاموں میں مصروف بھی رہتے ہیں مگر یہ خواب جب کروٹ کا پردہ چاک کر کے چھلانگ لگاتے ہیں تو وجود کے آ ئینے کو پاش پاش کر دیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ یہیں ہو آپ کے سرہانے اور آپ کے بالوں میں ایسے اپنی اُنگلیوں سے خط لکھ رہا ہو جیسے اُس نے اِسی خواب کی کہانی لکھی اور تعبیر کا قلم میرے ہاتھ میں دے دیا ہو۔ درد اور خواب کا رشتہ اُتنا ہی گہرا ہے جتنا چشم کا نمی سے۔

میرے خواب اکثر مجھے جھنجھوڑ دیتے ہیں خاص کر جب کسی کی یاد اور اُس کے سراپاۓ تشنگی سے منصوب ہوں تب میرے سُوکھے ہوۓ شجر کی ڈالیوں پہ بہار آجاتی ہے اور میں پھر سے کِھلنے لگتی ہوں مگر نہیں ؍ ایسا نہیں ہونا چاہیۓ کیونکہ پھر میرا وجود اُنہی خوشبوؤں کا پیچھا کرنے لگ جاتا ہے جہاں کے گُلاب بہت مہنگے ہوں اور وہاں کی منزل اُن سخت راستوں سے گُزر کر مِلتی ہے جہاں پہنچ تو جاتے ہیں مگر وہاں پہنچتے پہنچتے پاؤں میں چھالے اور جسم درد و غم سے نڈھال ہو جاتا ہے۔

آج برسوں بعد اُسے خواب میں دیکھ کر دل آٹھ آٹھ آنسو رویا ٫ ایسا تو تب بھی نہ ہُوا تھا جب اُس کی آواز سُنی میں نے فون پر چند ماہ پہلے۔ محبت خواب اور درد ایسے گہرے رشتے میں بندھے ہیں کہ کبھی پیچھا بھی چھُڑاؤ تو نہیں چھُڑا سکتے۔ آہوں کا شور اُتنا ہی تیز ہے جتنی لہریں مچلتی ہیں سمندر کے عشق میں۔ کبھی کوئی یاد کبھی کوئی کسک اُس کے ساۓ و وجود سے خالی نہیں جاتی۔ وہ ایسے میرے شہر میں سفر کرتا جیسے میرے جسم میں سانسیں ہیں اور وہ اِسی سفر کی منزل ہے جب تک یہ سانسیں ہیں۔

کبھی کوئی جدا بھی ہو تو خواب کے دریچوں سے آتا جاتا رہتا ہے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بن کر۔ یہی تو اصل عشق ہے اِسی میں فلاح اور اِسی میں مُکمل آزادی۔
یہی میرے خوابوں کی شدت ہے اور یہی اِس کی حقیقت۔

فالتو محبت

کبھی تو وہ شخص اجنبیٌت سی طاری کر لیتا ہے تو کبھی ہمدرد بن کر دل کی دہلیز فتح کر لیتا ہے ۔ایسا کیوں ہے؟ میں اِس پہیلی کو سُلجھا نہیں پائی۔ کبھی یہ خیال اؔتا ہے کہ وہ مجھے چاہتا ہے مگر کبھی یہ سوچ کر خود کو بہلا لیتی ہُوں کہ یہ ایک سراب ہے۔ کیا میں محبت کو سمجھ نہیں پائی یا وہ میرے ساتھ ُآنکھ مچولی کھیل رہاہے؟

کہاں ہے وہ؟ کہیِں نظر نہیں آتا۔ کہیں بھی اُس کا نام و نشان نہیں۔ یہ کیسی محبت ہے یا میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔

دل کی راہیں روح کی لگن ہی شاید اصل عشق کا حاصل ہے مگر کیسے پتا چلے گا کہ اُسے بھی محبت ہے؟ کیا بارش ہوگی؟ کیا آسمان سے رنگ اُتریں گیں؟ کیا ستارے رقص کریں گے؟

محبت کو اظہار کی چاہ ہے ، اُسے خواہش ہے کہ وہ خود کو سورج کی شعاؤں میں سُلگتا دیکھے۔

بے شک دل سمجھ جاتا ہے محبتوں کے داؤ پیچ مگر اِسے ضرورت ہے اقرار کی۔ پیار اور محبت کی پہلی سیڑھی ہے اقرار اور جنون۔

عجب ہیں محبت کی راہیں جہاں زندگی تو تھوڑی ہے مگر انا کا معیار موت کی حدیں بھی پار کر جاتا ہے۔ ہم عشق کرنے کا جذبہ تو رکھتے ہیں مگر اُسے نبھانے کا نہیں۔ ہم بُزدل ہیں کمزور اور خود پرست۔

ہم محبت نہین کر سکتے صرف وقت گُزار سکتے ہیں۔ ایسا وقت جس میں ہمارا مزا اور فالتو وقت گُزر سکے۔

وہ آنکھیں

وہ آنکھیں میرے روز مرّہ کے بھاگ دوڑ میں پیش پیش ہیں۔ کبھی وہ ہلکی سی شعاع بن کر میرے صحن کی دھوپ سجاتی ہیں تو کبھی بارش کی گرجتی بُوندوں میں اپنا عکس چھوڑ جاتی ہیں۔ نا ممکن ہے اِن حصاروں سے پیچھا چھُڑانا۔ جب آدھی رات کی بے چینی ستانے لگے تو وہ آنکھیں بُلاتی ہیں ماضی کی تصاویر کو پھر سے تازہ کرنے میں۔ جب کبھی گُزرتی ہُوں اُن شاہراؤں سے جہاں کبھی ہم مِلے تھے ، وہ مجھے مِلتی ہیں کبھی مسافر بن کے تو کبھی رِہ نُما بن کے۔

اکثر جب خزاں کے موسم پہ عروج ہوتا ہے تو وہ آنکھیں مجھ سے اُن پت جھڑ کا حساب مانگتی ہیں جہاں کبھی ہم نے ایک ایک لمحے کو ٹُوٹتے دیکھا تھا۔ جب سردیوں کی پِیلی صُبح گھڑی کے نو بجاتی تھی تو میرا انتظار اور بھی بیتاب ہو جاتا تھا کہ کب اُن نظروں کو خود میں جذب ہوتا پاؤُں گی میں۔ میرے جنون کا صبر اور میری انگلیوں میں بہتا میٹھا درد اور میٹھا ہوتا چلا جاتا تھا۔

جانے کتنے عرصے بعد بھی وہ آنکھیں میرے ساتھ ہیں۔ جہاں جہاں بھی جاؤُں ، وہ مجھ پہ اپنی نظریں جماۓ ہیں۔ کسی راستے بھی چل نِکلوں کہیِں بھی قدم جمنے کگیں، وہ دلکش آنکھیں میرے وجود کا آئینہ بن چُکی ہیں۔ ے شک وہ میرے ساتھ نہیں مگر میری روح کے گوشے گوشے میں اُن کا بسر ہے۔ حقیقت کو جھُٹلایا نہیں جا سکتا۔

وہ ہیں یہیں کہیِں۔ میرے رہنے میں ، میرے سہنے میں ، میرے راستوں میں یا شاید میری منزل میں۔

رات اور ڈر

رات ایک ایسی قبر ہے جہاں کی تنگ دستی اور سنٗاٹے اپنے ہی کیۓ گۓ گُناہوں کی گواہی دیتے ہیں۔ کبھی خواہشوں میں لِپٹے خود غرضی کے جھُوٹے دعوے تو کبھی سَچ کے لحاف میں پوشیدہ فریبی مخملی جال۔ یہ سب ڈراتے ہیں مُحبّت کا لِبادہ اوڑھے۔ راتیں اپنے ساتھ اکثر خوف کی ریشمی پوشاک پہنے ہمیں لُبھانے آتی ہیں۔ ہم کبھی اِن کی دغاباز چالوں سے لُطف اندوز ہوتے ہیں تو کبھی اِن سے بھری خوفناک اداؤں میں پھنستے بھی ہیں۔

جب آدھی شب کے طُوفانی جنون کا دیدار ہوتا ہے تو اندازہ لگایا جاتا ہے کہ خیالات کا تجسّس اور حقیقت کا تصوّر آخر ہے کیا۔

یہ ڈر اور یہ حیران کُن تجربہ محض ایک اتفاق نہیں مگر سَچ کے دائرے میں قید وہ المیّہ ہے جسے سمجھنے میں برسوں لگ جائیں۔ انسان عُمر کے اُس حِصّے میں داخل ہو جاتا ہے جہاں سے اگلا قدم موت ہے۔

نِصف پہر کی کاٹتی ہُوئی رات بس ایک اِشارہ ہے اُن چاہتوں کی طرف جہاں صرف مایوسی ہی گھیرا ڈال سکتی ہے۔ یہی داستان ہے خوفناک راتوں کی اور یہی سچّائی گُمراہی میں کیۓ گُناہوں کی۔۔

اور کوئی فلاح نہیں۔۔۔۔

خود پرستش

میرا ہر لفظ مُحبّت پہ شروع اور مُحبّت پہ ہی ختم ہوتا ہے۔ چاہے وہ کسی اپنے کے لیۓ ہو یا پھر کسی عشق سے منسُوب۔ مُحبّت کی شناخت ایک ہی رشتے کی پابند نہیں مگر کئی رنگوں کے گِرد بُنتی ایسے جال کی مانند ہے جس سے ایک کائنات تخلیق ہوتی ہے۔ کبھی مُجھے لگتا تھا کہ عشق اور مُحبّت فقط صرف ایک شخص کی مرّہونِ مِنّت ہیں مگر میری سوچ ایک محدُود سو چ تھی۔

مُحبّت اور عشق اِن سب رشتوں سے بالا تَر ہیں۔ اِنہیں نہ ہی کسی بندش کی ضرورت ہے اور نا ہی کسی نام کی۔

وہ لوگ جو خود کو ایک کامیاب انسان سمجھتے ہیں اور اُنہیں لگتا ہے کہ اُن کی اَنا ایک ایسے احساس کی حامل ہے جہاں اُن کے وجود کے علاوہ کسی اور شخص کے داخلے کی ضروری نہیں ، وہ انتہائی غلط فہمی کا شِکار ہیں۔۔

خُود پسندی ایک اور بات ہے اور خود برتری ایک الگ مُعّمہ۔۔

کیوں آپ خود پہ مر مِٹے؟ کیوں آپ کو لگا کہ آپ سے بڑھ کر کوئی نہیں اِس جہان میں؟ کیا آپ نے خُدا کو ماننے سے انکار کر دیا یا پھر اُس کی بڑائی کو اپنے جذبات پہ فوقیّت دینا ترجیح سمجھا؟

عشق کی دُنیا میں نہ تو گُھمنڈ طاری ہوتا ہے اور نہ ہی خود پسندی جیسا کوئی اِرادہ۔۔

عشق اِن سب منزلوں سےآگے ہے اور جُدا بھی۔۔۔

کڑواہ سچ

جب لگے کہ زندگی تھوڑی ہے اور مُحبت بہت زیادہ تو اُس بات کا اندازہ ہو جانا چاہیۓ کہ ہر پَل ہمیں جِینا ہے۔ ہم ہمیشہ اپنی اَنا میں زندگی گُزار دیتے ہیں کہ دُوسرے نے ہمیں کیا دِیا۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہم نے اُسے کیا دِیا۔ مُحبّت کرنا ایک سچّائی ہے اور مُحبّت کو نِبھانا دُوسری۔ بہت سے لوگ دَم بھرتے ہیں کہ اُنہوں نے عشق کیا مگر عمل سے کر کے دِکھانا دوسری بات ہے۔

کسی کی یاد میں پَل پَل مرنا ایک الگ بات ہے۔ یہ وہی جانتا ہے جس نے جھیلا ہو۔ عشق کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔ اپنے گُناہوں کو تسلیم کرنا اور اُن کو درست کرنے کی کوشش کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ہر کوئی اپنا دامن بچانا چاہتا ہے گر کیا یہ مُحبّت کا اِنصاف ہے؟ پتا نہیں۔

عشق اَپ کو قُربانی اور ایثار سِکھاتا ہے اور زندگی چھیِننا۔

حقیقت اور داستان میں یہی فرق ہے جو سچّائی اور فسانے میں۔ ہم سب سراب کے پیچھے بھاگتے ہیں مگر کیا خواب ہمارے راستوں کی رہنمائی کرتے ہیں؟ بس یہی تو سمجھ نہیں آتا کہ کتنی مسافتوں کے سفر کے باوجود ہم اپنے مقصد سے نا آشنا ہیں۔

میں ایک ایسے انجان راستے پر سوار ہُوں جہاں کی پَگ ڈنڈیاں ایک ایسے نا معلوم راستے کو جاتی ہیں جہاں سواۓ کھائیوں کے کُچھ نہیں۔ اور جہاں کی منزل سواۓ ادھورے مراسم کہ کہِیں اور لے جا نہیں سکتی۔

بس یہی ایک سیاہ سَچ ہے۔

ایک کہانی؟

ہم کیا ہیں؟ مِٹّی کے ڈھیر میں دبے چند ورق یا پھر زندگی کے قلم سے لِکھّے وہ اشعار جنہیں اب کوئی پڑھتا بھی نہیں۔ میں نے زندگی کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے۔ کبھی وہ خود غرضی میں لِپٹی کوئی دا ستان ہے یا پھر کسی درد کے لحاف میں رچی کہانی۔ مُحبّت ایک ایسی رُباعی ہے جس کے سُر کبھی بِگڑتے تو کبھی ناچتے نظرآتے ہیں۔

میں نے بھرپُور گُزاری ہے یہ حیات۔ مُحبّت میں گِھرے رشتے ہوں یا حسرتوں میں جاگتے خواب ، اِن سبھی خواہشوں کے سرہانے میں نے گُزاری ہیں اپنی راتیں۔ ایک نۓ چہرے کا اِنتخاب ، اِک نئی لگن کا اِنتظار کیا ہے میں نے۔

جب بھی وہ مُجھے مِلا ، ایک نیا دھوکہ ایک سراب مُجھے مِلا میرا خیر مقدم کرنے کے لیۓ۔ زندگی ہے کیا؟ اِس کا کیا مقصد ہے؟

میں اب تک سمجھ نہیں پائی۔

عشق مُحبّت یا پھر کوئی سراب؟

وہ مِلا بھی پر ایک کہانی بن کر۔ ایک شعر بن کر۔ شاید وہ چاہتا تھا کہ میرے اشعار میں وہ ایک کردار بن کر جِیۓ۔

مگر شاید میں ہی اُس کو داستان بنانا چاہتی تھی۔

محض ایک خیال؟

کبھی تو لگتا تھا کہ یہ سب ایک حقیقت ہے۰ مگر وقت سب سے بڑا اُستاد ہے۰ یہ وہ ھی سِکھا دیتا ہے جو انسان سیِکھنے سے قاصِر ہے۰ محبتوں کی خواہش کرنے والوں کی یہی سزا مُقرّر ہے۰ یہ ایک لا حاصل سا فرار ہے جہاں کوئی پُہنچنا بھی چاہے تو نہیں پُہنچ سکتا۰ کبھی لگتا تھا کہ مُحبّت سے اعلیٰ کوئی جذبہ نہیں مگر یہ سب ایک جھوٹ ثابت ہُوا۰

جن اَنکھوں کو یاد کر کے راتوں کی چاندنی کو ماندھ کیا ہے وہ اب دن کے اُجالے میں کبھی تپِش تو کبھی آگ بن کر برستی ہیں۔

وہ شاید اُس ٹُوٹے تارے کے مانند تھِیں جسے اپنی خود کی منزل کا پتا نہ ہو۰ اور میں پاگل محض ایک سراب بن کے رہ گئی۰

حُسن کے گُلدستے میں لِپٹی کوئی غزل یا پھر مُرجھاۓ پھُولوں کی باسی مِہک۰

مُحبّت عشق سب بے وفا اور زندگی ایک دھوکہ۰