جھُوٹی کہانی

3105F77E-EDCE-42B7-B8B5-FB7CC4345478

میں کیوں کرُوں خاتمہ

اپنے خوابوں کا

جبکہ وہ محظ ایک

سراب ہے اور کُچھ بھی نہیں

میں کیوں رات دن

جلُوں اُس کے خیال میں

جبکہ وہ محظ ایک

احساس ہے اور کُچھ بھی نہیں

میں کیوں دُوں خُود کو اذِیت

اُس کی اُمیدوں کو روند کر

جبکہ وہ محظ ایک

دھوکہ ہے اور کُچھ بھی نہیں

 

 

خِزاں

 

90AC9C33-FCC5-4DCC-9D75-EFAC2FFE784D

اب رات نہیں دن کے اُجالے ستاتے ہیں بُہت

کہِیں خزاں بنے تو بہاروں نے لُوٹا  کبھی

بارشوں کی نمی میں دُھل گۓ بِہتے بِہتے

کہِیں راستوں پہ بھٹکے دو مُسافر تو

کبھی منزلوں کا دل چاک کِیا خاک چھانتے چھانتے

ڈُوبے کئی بار خوشبوؤں کے بھنور میں تو کبھی

سُرخرو ہُوۓ اپنی ہی تھکی ہُوئی سانسوں میں بِہہ کر

مگر اب رات نہیں دن کے اُجالے ستاتے ہیں بُہت