میں جلد ہی آزاد ہو جاؤُں گی
عنقریب وہ وقت آنے کو ہے
میرا دل جب چھوڑے گا غُلامی
پھر نئی تاریِخ دُہرانے کو ہے
میں جواں ساحل سے ٹکراؤُں گی
جلد ہی ایک طُوفان آنے کو ہے
جب ٹُوٹیں گی زنجیریں ایسے
کئی نۓ زیور پہنانے کو ہے
کروں گی سوداآرزُو کا یہاں
کیونکہ عشق فلاح پانے کو ہے
میری شُعاع میں سفر کرتا ہے
ظالم پھر سے دغا کھانے کو ہے
شمعٰ تُو رہ گئی روتے و سُلگتے
خبر شکست کی شاید آنے کو ہے