…کبھی نہ ختم ہونے والےسِلسلے

image

پلکوں کی چھاؤں میں تڑپتی راتیں

وہ سِتاروں کی روشنی میں لِپٹی چاندنی

اُن یادوں کے سرہانے سمٹی خواہشیں

آغوش کے سایوں میں دو دھڑکتے جذبات

…وہ حسین لمحے نہ ختم ہونے والے سِلسلے

دُعا میں پھیلے ہاتھ ہوں جیسے

سجدےمیں گِرتے گڑگڑاتے ہوں جیسے

خزاں کے سُرخ زرد پتّوں کی زندگی

سُرمئی شام کی آخری کرن ہو جیسے

….وہ حسین لمحے نہ ختم ہونے والے سِلسلے

خوُشبو سے مُعطّر پیروں کی مہندی

احساس کے بِچھونے میں رُوح کی گرمی

شفافیّت میں گھُلی آئینے کی شبی

بارش کی پہلی بُوند جب ہونٹ کو چُبھی

…وہ حسین لمحے نہ ختم ہونے والے سِلسلے

بے تاب آرزو میں لِپٹی کوئی تمنّا ہے

ادھورے عکس کی کیفیّت سے لڑتی رہی

وہ نا مُکمّل رہی اُس آگ میں جل کے

کائینات کی روشنی میں چُھپی کسک ہو جیسے

…وہ حسین لمحے نہ ختم ہونے والے سِلسلے

…ایک بار پِھر سے

image

تیرے ساۓ سےکوئی مراسِم نہیں اب تو

پِھر سے یہ رشتہ بنا لوُں تو کیا ہو

میرے خیال ریزہ اور خواب حیات ہیں

گر نیند سے ہی نہ جاگوں تو کیا ہو

زندگی میں مقام آ رہا ہے پھر سےشاید

خوُد سے گر میں جی لگا لوُں تو کیا ہو

خزاں سے جو کسک اُدھار دی تھی تُم نے

اُسی راستے کو منزل بنا لوُں تو کیا ہو

میرے شب و روز پہ طاری ہے ہر دم وہ

اِس قید سے گر جاں چھُڑا لوُں تو کیا ہو

اِس میں سزا ہے اُس کی رضا کے ساتھ

فقط خُدا سے عشق لگا لوُں تو کیا ہو

پگھلتی جا ہی ہے شمعٰ آہستہ آہستہ

اِس تپش سے رُوح جلا لوُں تو کیا ہو

کُچھ بھیگے پَل

image

یہ شور مچاتے پیڑ

یہ لِہراتی مست ہوائیں

یہ گِیلی مِٹّی کی خوشبو

….اُسے میری یاد تو دلاتے ہوں گے

یہ ٹَپ ٹَپ ناچتے قطرے

یہ مچلتی شوخ آندھی

یہ پُر کشش نظارے

….اُسے میرا پتا تو دیتے ہوں گے

یہ اَشک بہاتی برسات

یہ گھنگور سیاہ گھٹائیں

یہ پلکیں جھپکاتی بِجلی

….اُسے میرا حال تو سُناتے ہوں گے

اِطمینان

image

زندگی کے راستےکٹھِن ہوں اگر

ہَمسفر ہو تُم بس یہی کافی ہے

کنارۂِ دل چھلنی  ہو جاۓاگر

ہَم نَفس ہو تُم بس یہی کافی ہے

رنج و غم گر محبوب ہونے لگیں

ہَم پہلُو ہو تُم بس یہی کافی ہے

چھلَکنے لگیں آنسو تو کیا ملال

ہَمدرد ہو تُم بس یہی کافی ہے

دِلکش نہ سہی نغمہ و شعر اکثر

ہَم سُخن ہو تُم بس یہی کافی ہے

میری لَگن

image

اُن آنکھوں کو یاد کرتی ہوں

جن کے آئینے میں اپنا عکس

دیکھ کے بھُول جاتی ہوں

….کہ میں کون ہوں

اُن ہاتھوں کو یاد کرتی ہوں

جن کو تھامتے ہی یہ احساس

جگتا ہے کہ پُوری کائنات باہوں میں

….سِمٹ آئی ہو جیسے

اُن ذُلفوں کو یاد کرتی ہوں

جن کی خوشبو میں بسےمیری تقدیر

کے گھنے ساۓ ہیں جن میں کھو کے

….میں بے سُدھ ہو جاتی ہوں

اُن لفظوں کو یاد کرتی ہوں

جن کے سُنتے ہی اُفق سے پھُول برسنے

لگتے ہیں اور میرے وجود کے درودیوار میں

….جھنکار بجنے لگتی ہے

اُن ہونٹوں کو یاد کرتی ہوں

جن کو چھُوتے ہی ہوش اُلجھنے لگتا ہے

تب خُمار کی سیڑھی چڑھتے یہ خیال نہیں

….آتا کہ پیاس کی حد کیا ہے

اُن خُوبرو نظاروں کو یاد کرتی ہوں

جن کے نُور سے میری رُوح کا آسمان

چمکنے لگتا ہے تب میں ، میں نہیں رہتی

….تُم بن جاتی ہوں

آنکھ مِچولی

image

آج پھر ایک نئی اُمید بنی

اور مایُوسی پروان چڑھی

آج پھر دھڑکن زندہ ہوئی

اور پھرسے شیشے ٹوُٹے

آج پھر پُرانےدرد جگے

اورخوُد کو بہلایا میں نے

آج پھر شام ڈھلی نہیں

اورنئی صُبح طلُوع نہ ہوئی

آج پھر پرچھائی کو اوڑھا

اور نئے ساۓ میں گُم ہوئی

آج پھر اُس کو یاد کیا

اور اپنے آپ کو بھُول گئی

سوال

image

کیا اِن باہوں سے دُور رہ سکو گے؟

کیا اِن پناہوں سے دُور رِہ سکو گے؟

جن سانسوں میں کروٹ لیتے تھے

اُن خوابوں سے دُور رِہ سکو گے ؟

سِتاروں کی محفل جو سجائی تھی

اُن شاموں سے دُور رِہ سکو گے؟

پیاسی آنکھیں بُلاتی ہیں تُمہیں

اِن اُجالوں سے دُور رِہ سکو گے؟

جن شعروں میں جُستجو ہو تُمہاری

اُن افسانوں سے دُور رِہ سکو گے؟

ختم نہ ہو کبھی لگن یہ میری

اِن انتہاؤں سے دُور رِہ سکو گے ؟

آئینے میں چہرہ جو دیکھتے تھے

اُن سرابوں سے دُور رِہ سکو گے ؟

خود کو کھو چُکے ہو جس دل میں

اُن دھڑکنوں سے دُور رِہ سکو گے؟

پرَستِش

image

شام ہوتے ہی پھُول اُسے چُومتے ہیں

رات ڈھلتے چاندنی اُسے نہلاتی ہے

ستارے اُس کے آنچل میں سِمٹ آتے ہیں

آفتاب اُس کے بدن سے کِرنیں سیکتا ہے

…..کیونکہ گُلبدن اُسے کہتے ہیں

سویرا اُسے شبنمی تاج پہناتا ہے

ہوائیں اُس سے خوُشبو اُدھار لیتی ہیں

نرم چھاؤں اُس کی ذلفوں کو سہلاتی ہے

اُس کی آنکھوں میں مے رس گھولتی ہے

….کیونکہ مہجبیِن اُسے کہتے ہیں

بارش اُس کے عشق میں بےاختیار برستی ہے

اُس کی پایل سے سرگم بجنے لگتے ہیں

چوُڑیاں رقص کرتی ہیں اُس کی کلائی پہ

اُس کی مُسکراہٹ میں دھنک کے رنگ شامل ہیں

…..کیونکہ بہار اُسے کہتے ہیں

گجرے کی کلیاں مہکاتی ہیں وجُود اُس کا

سمندر اُس کی گہرائی میں ڈُوب جاتا ہے

اُس کے ہونٹ آبِ حیات کا پیالہ ہیں

مہندی اُس کی ہتھیلی پہ رنگ سجاتی ہے

….کیونکہ گُلزار اُسے کہتے ہیں

مُستحِیل

image

مکَمّل ہوتے ہی رنگِ تصویر چُھپنے لگے ہیں کناروں میں

سُرخ گُلاب  کبھی زرد تو کبھی صفا ہُوۓ جاتے ہیں

محفلِ رنگ سجائی ہےکاغذ کےپھُولوں سےکہ برقرار رہے

مہکتے گُلشن  کبھی دشت تو کبھی صحرا ہُوۓ جاتے ہیں

بےجان بُت تراش کر پچھتاوےکی ڈور سے بندھ گئی زندگی

سنگ تراش کبھی  بشَر تو  کبھی خُدا ہُوۓ جاتے ہیں

عجب حُسن و شباب کی پھیکی رونقوں سےلُبھاتےہیں ذات کو

تماشائی کبھی زہر تو کبھی دوا ہُوۓ جاتے ہیں

کیفِیّت

image

ڈوبتی ہوئی دھڑکن کی تال

پہ گُم ہوتے لمحے مدہوش ہونے

لگتے ہیں جب دو جسم باہوں میں

….دَم توڑنے لگیں تو

پیاسے جذبوں میں گُھلتی کسک

پُوری ہونے لگتی ہے جب نشے میں

چُور دو بدن سانسوں میں

…..دَم توڑنے لگیں تو

سُہانے سِلسلوں کی چھاؤں

تلے احساس تڑپنے لگتے ہیں

جب ریشم میں لِپٹے دو وجود

…..دَم توڑنے لگیں تو