یہ سفر ویسا نہیں کہ چل دِیۓ
اور پلٹ کے دیکھ بھی نہ سکے۔۔
یہ کئی برسوں کی مُسافت ہے جس
پہ پاؤں کبھی تھکتے تو کبھی
ٹوٹتے ہیں ۔۔۔۔
کہِیں پہ ہار جاتی ہے لگن تو کبھی
شکست دیتے ہیں دل جن
کی جھُوٹی وفائیں اور نا قدری میں
چُور جسم بھُول جاتے ہیں اپنی منزل۔۔۔
بھٹکی ہُوئی راہوں کے شاداب بدن
گُمراہ تو کرنا چاہتے ہیں لیکن
اب اُن کا گُزر ہوتا نہیں یہاں کے
در و دیوار کا۔۔۔
نہ چاہتے ہُوۓ بھی غلط موڑ اور
انجان راستے اپنے سے کیوں لگتے
ہیں کبھی؟
یہ سفر یہ راستہ وہ موڑ اجنبی
بھی ہے مگر لگتا دلفریب ہے۔۔۔
سمندر سا جوش چٹانوں سی مظبُوطی
ہو بھی اگر تو منزل پھر بھی آخر
لا پتہ ہی ہے۔۔۔
تب سفر بنتا ہے پُر کشِش اور لاجواب۔۔۔