آدھے دن کا سفر

یہ سفر ویسا نہیں کہ چل دِیۓ

اور پلٹ کے دیکھ بھی نہ سکے۔۔

یہ کئی برسوں کی مُسافت ہے جس

پہ پاؤں کبھی تھکتے تو کبھی

ٹوٹتے ہیں ۔۔۔۔

کہِیں پہ ہار جاتی ہے لگن تو کبھی

شکست دیتے ہیں دل جن

کی جھُوٹی وفائیں اور نا قدری میں

چُور جسم بھُول جاتے ہیں اپنی منزل۔۔۔

بھٹکی ہُوئی راہوں کے شاداب بدن

گُمراہ تو کرنا چاہتے ہیں لیکن

اب اُن کا گُزر ہوتا نہیں یہاں کے

در و دیوار کا۔۔۔

نہ چاہتے ہُوۓ بھی غلط موڑ اور

انجان راستے اپنے سے کیوں لگتے

ہیں کبھی؟

یہ سفر یہ راستہ وہ موڑ اجنبی

بھی ہے مگر لگتا دلفریب ہے۔۔۔

سمندر سا جوش چٹانوں سی مظبُوطی

ہو بھی اگر تو منزل پھر بھی آخر

لا پتہ ہی ہے۔۔۔

تب سفر بنتا ہے پُر کشِش اور لاجواب۔۔۔

 

 

شاید کبھی؟

اُس کے احساس سے کبھی تو چھُو کے

گُزرتی ہونگی میری آنکھیں۔۔

اندھیرےکمرے میں جب وہ شمیں

جلاۓ بیٹھتا ہوگا۔۔

کوئی مُسکراہٹ چِیر دیتی ہوگی

اُس کے ویراں پیمانے کو۔۔

اکیلے میں جب اُسے یاد آتی ہوگی

میرے شوق کی بے لگام چاہت۔۔

وہ پھر جھٹ سے جھٹک دیتا ہوگا

بے خیالی کے نا کردہ گُناہوں کو۔۔

ستاتے ہونگے جب اُسے وہ ادھورے دن

وہ غروُب ہوتی شبیں۔۔

چُھپا کے غم اپنا کر لیا کرتا ہوگا

دل کو راضی یُونہی کبھی۔۔

کبھی نِصف پہر کی سیاہی جگا دیتی

ہوگی اُس کی مِیٹھی نیند کو

کہِیں نیم خواب تو کہِیں محظ خیال

اُس کے نرم ہاتھوں کی گرمی

چُراتے ہُوں گے۔۔

چُپکے سے پڑھ نہ لے اُن پیاسی

آنکھوں کو کوئی جن سے کبھی

شعر تو کبھی غزلیں لِکھا کرتی تھی۔۔

اب وہاں پہ صرف سرد راکھ

جلا کرتی ہے

اور کُچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔