وصلتِ یار

image

مُدّتوں بعد آج اُسی

پِہلُو میں گُزرا ہے وہ

شاندار پَل جس کے

انتظار نے سانسوں

کو روکے رکھا تھا

…جیِنے کے لیۓ

مُدّتوں بعد آج اُسی

خوشبو کے وصل میں

کھِلی یہ پنکھڑی جس

کی تمنّا میں مُرجھا رہا

…تھا سارا چمن میرا

مُدّتوں بعد آج وہ

ستارے پُہنچے ہیں

کٹھِن سفر کو پار کر کے

جن کی پیاس میں یہ

مسکراہٹ ماندھ پڑی

…جا رہی تھی

مُدّتوں بعد آج اُن

نظروں میں جھانکا ہے

جن کے چمکنے کی

حسرت میں میرا آئینہ

…بِکھرتا جا رہا تھا

مُدّتوں بعد آج چُوما

ہے لبوں کی اُس رنگت

کو جن کی طلب میں

پھِیکے پڑ رہے تھے میرے

…ہونٹوں کے گُلاب

مُدّتوں بعد آج اُنہی

صندلی ہاتھوں کو تھاما

ہے جن کے لمس کی

چاہ میں یہ ہاتھ برف

…ہُوۓ جا رہے تھے

اہمیّت

image

…بس اِتنا جاننا ضروری ہے

کیا آج بھی اُن خوابوں کی تعبیِر

میرے وجود کے تکیے سے آشنا ہوگی؟

کیا آج بھی وہ قاتل مُسکراہٹ

خیال میں میرے جھُومتی ہوگی؟

کیا آج بھی بھیگی فضائیں

اُس کی پلکوں پہ موتی بکھیرتی ہوں گی؟

کیا آج بھی اُس غزل کو سُن کر

اُس کی نشیلی کسک ٹُوٹتی ہوگی؟

کیا آج بھی وہ مہکتے گُلاب

اُسےمیری خوشبو کی یاد دِلاتے ہوں گے؟

کیا آج بھی میری پایل کی چھَنک

اُس کی حسرت میں برق لہراتی ہوگی؟

کیا آج بھی اُس کے لمحوں میں

شِدّت بے اختیاری کی چادراوڑھتی ہوگی؟

کیا آج بھی سِتاروں کے جھُرمٹ میں

وہ چمکیلی محفلیں تلاش کرتا ہوگا؟

کیا آج بھی سرد راہوں سے گُزرتے

وہ شمعٰ کی آگ میں جلتا ہوگا؟

…بس اِتنا جاننا ضروری ہے

…بس اِتنا جاننا ضروری ہے

تَشوِیش

image

بے زار ہے شِکن جس سِمت بھی چل نکلوُں

نہ جانےاِس راستےکی منزل ہے بھی کہ نہیں

بے صبر دل تباہ کرنے کو ہے ذات میری

نہ جانے اِس غم کی اِنتہا ہے بھی کہ نہیں

بکھر گۓ سبھی شیِشے میرے آئینے کے

نہ جانےاِس دراڑمیں جوڑ ہے بھی کہ نہیں

پچھتاوے کی ڈور سے بندھ گیا ہے ماضی

نہ جانےاِس تعلّق کی صُبح ہے بھی کہ نہیں

فریب کے پاؤں چلنے لگے ہیں سیدھی چال

نہ جانےاِس سازش میں مات ہے بھی کہ نہیں

…اکثر

image

اُس کھِلکھلاتی ہنسی کو

اُس جھِلملاتی لِہر کو

اُس چمکتی کرن کو

اُس کَسمساتی اَگن کو

…اکثر میں یاد کرتی ہُوں

…اکثر میں یاد کرتی ہُوں

اُن بانہوں کے دائروں کو

اُن نظروں کے شراروں کو

اُن لبوں کے پیالوں کو

اُن شانوں کے سہاروں کو

…اکثر میں یاد کرتی ہُوں

…اکثر میں یاد کرتی ہُوں

اُس وصل کے لمحے کو

اُس بے لوَث طلب کو

اُس آزاد پرندے کو

اُس انمول دَور کو

…اکثر میں یاد کرتی ہوُں

…اکثر میں یاد کرتی ہُوں

 

 

سزاۓ تازِیانہ

image

کِس جُرم کی ہے یہ سزا پتا تو چلے

دل لگانا گر گُناہ ہے تو یہی سہی

صبر بھی ہے بے چینی کی قبر میں بَند

موت کو گلے لگانا ہے جب تو یہی سہی

سُنائی ہے قیدِ با مُشقّت میرے محبوب نے

ہنس کےزِندان میں جل جاناہےتو یہی سہی

نہ کوئی سوال میں کروُں نہ تُمہیں کوئی فکر

چُپکے سے زہر یہ پی جانا ہے تو یہی سہی

اَب نہ طلب کوئی کھٹکھٹاۓ گی تُمہارا دَر

خُود سے رُوٹھ جاناہےاگر تو یہی سہی

میں سو جاؤُں گی سیاہیِوں کے ملبوس تلے

کہکشاں کو گر منانا نہیں تو یہی سہی

ڈھال بنا کے جس مقصد سے توڑا ہے دل

اِس رُوح کو گر مار ڈالنا ہے تو یہی سہی

شُجاعت

image

کیا کریں کہ آرزُو شِکست کھاتی نہیں

کیونکہ رات اِس کی کبھی ڈَھلتی نہیں

دل ضِد کرے کہ جانا ہےاِسی سِمت

کیونکہ کسی اورجانب راہ مُڑتی نہیں

چاہت جاگی ہے بڑی تگ و دَو کے بعد

کیونکہ ہِمّت اَب آنچل چھوڑتی نہیں

مِلے گی منزل ضرور یہ عِلم ہے مُجھے

کیونکہ عشق کی سیڑی میں اُترتی نہیں

گرد و غُبار

image

اِس رُکاوٹ کو سمجھا پتھّر تُم نے

میں یہ سمجھی کہ یہ حاصلِ منزل ہے

جس مُحبّت کو سمجھتے ہو دھُول تُم

میں یہ سمجھی کہ یہ حاصلِ دریافت ہے

جس مقصد کے آڑے آۓ کوشش تُمہاری

میں یہ سمجھی کہ یہ حاصلِ عہد ہے

تُمہیں لگا کہ زخم بن جاۓ گا درد یہ

میں یہ سمجھی کہ یہ حاصلِ علاج ہے

جس رُسوائی میں دل شرمسار کرے تُمہیں

میں یہ سمجھی کہ یہ حاصلِ وقار ہے

اُمِید

image

کُچھ رہے نہ باقی رنگ میں اگر

رہے گی سُرخی اِن لبوں پہ صدا

چمن اُجڑ جاۓ تو شکوہ نہیں

کھِلے گی دھنک اِس رُخسار پہ صدا

نہ گِلہ ہو کہ رُوٹھے دل سے کرن

پِگھلے گی آگ اِس بدن پہ صدا

نہ کھولے کوئی کِواڑ اُمیِدوں کے

ٹیکے گی ماتھا اِس دَر پہ صدا

جکڑا ہے چاندنی کو گھٹا نے ایسے

چَھنے گی شُعاع اِس آنگن پہ صدا

مایوُس نہ ہو گر شمعٰ بُجھنے لگے

جلے گی دوبارہ اِس مقام پہ صدا

مُعاوضہ

image

لین دین کر کے دیکھیں گے

…اب عبادت سمجھ کر

اِظہار کرے گی خامِشی

…اب عقیدت سمجھ کر

در گُزر کرے گی اَنا

…اب بے کسی سمجھ کر

آزماؤُں گی خفگی کو

…اب اپنایّت سمجھ کر

نۓ زاویۓ سے پڑھُونگی

…اب قُرآن سمجھ کر

یقین کی بازی جیِتے گی

…اب میدان سمجھ کر

عادت کو بھُولنا ہو گا

…اب بے غرضی سمجھ کر

سیاست بدلے گی نۓ رُوپ

…اب مُحبّت سمجھ کر

بغاوت

image

سُلانا چاہتے ہیں شور و غُل جسے

وہ آندھیاں دَب نہیں سکتیِں

اوڑھاتے ہیں کالی رات تلےساۓ

وہ روشنیاں چُھپ نہیں سکتیِں

کھِلے ہنسی میں پِنہاں اَشک جہاں

وہ بارشیں تھَم نہیں سکتِیں

ہے ہلچل آگ کےسیلاب میں جتنی

وہ تباہِیاں رُک نہیں سکتیِں

مِٹا دےاصُول جو زِندگی کی زینت

وہ رُسوائیاں ٹھِہر نہیں سکتیِں

پڑیں لاکھ تماچے ضِد کی چاہ میں

وہ ڈِھٹائیاں ہَٹ نہیں سکتیِں