ٹُوٹ کے گِرتے ہیں اِحساس سمندر میں
جیسے کوئی لِہر نہ ہُوئی مُحبّت ہُوئی
اُلفت سُناتی ہے قِصّے آزمائشوں کے
جیسے کوئی زندگی نہ ہُوئی کہانی ہوئی
اِس کسک کی چاہ میں فنا ہُوۓ صنم
جیسے کوئی چُبھن نہ ہُوئی راحت ہُوئی
آؤ! پھر کہ بدن کی اور کوئی طلب نہیں
جیسے کوئی ضرورت نہ ہُوئی دُشواری ہوئی
توڑ کے دیکھو کبھی سراب کی ڈالی کو
جیسے کوئی خطا نہ ہوئی منزل ہوئی
جبر کرتے ہیں ذہن میں قید خیال ایسے
جیسے کوئی حقیقت نہ ہُوئی چُغلی ہوئی
شمعٰ اِنتظار میں گھُلی جاتی ہے یُوں
جیسےکوئی تباہی نہ ہوئی عاشقی ہُوئی