فریب

IMG_1636

ٹُوٹ کے گِرتے ہیں اِحساس سمندر میں

جیسے کوئی لِہر نہ ہُوئی مُحبّت ہُوئی

اُلفت سُناتی ہے قِصّے آزمائشوں کے

جیسے کوئی زندگی نہ ہُوئی کہانی ہوئی

اِس کسک کی چاہ میں فنا ہُوۓ صنم

جیسے کوئی چُبھن نہ ہُوئی راحت ہُوئی

آؤ! پھر کہ بدن کی اور کوئی طلب نہیں

جیسے کوئی ضرورت نہ ہُوئی دُشواری ہوئی

توڑ کے دیکھو کبھی سراب کی ڈالی کو

جیسے کوئی خطا نہ ہوئی منزل ہوئی

جبر کرتے ہیں ذہن میں قید خیال ایسے

جیسے کوئی حقیقت نہ ہُوئی چُغلی ہوئی

شمعٰ اِنتظار میں گھُلی جاتی ہے یُوں

جیسےکوئی  تباہی نہ ہوئی عاشقی ہُوئی

 

جلتے بُجھتے

IMG_1634

وصل میں دیتے ہیں آنسُو نئی راحت

ہِجر میں خُوشی جو مِلے سوغات ہے

شفق کرتی ہے چاک سِینہ بادل کا

شُعاع میں بارش جو مِلے سوغات ہے

پڑتی ہیں نظریں خنجر کی رفتار سے

قُربت میں فاصلہ جو مِلے سوغات ہے

خِزاں میں شجر مُسکرانے لگا ہے

پت جھڑ میں بہار جو مِلے سوغات ہے

اُس کی سنگت میں تِشنگی کی شِدّت

صِحرا میں سمندر جو مِلے سوغات ہے

کھِلتے ہیں پھُول کانٹوں کی بانہوں میں

زخم میں کسک جو مِلے سوغات ہے

شمعٰ پِگھلنے لگی مزار پہ عشق کے

انجام میں اِعزاز جو مِلے سوغات ہے

..چَند روز اور

IMG_1631

اِشارے تو دیتی ہیں کبھی زرخیز

ڈالیاں اور کبھی مخملی گُلاب کہ

بہار آئی ہے لے کے نۓ افسانے تو

کر لے ارمان پُورے مگر وقت ہے جو

کہتا ہے کہ ابھی رُک جا زرا

…چَند روز اور

چھنکنے میں ابھی پایل کے دن

ٹِھہرےاور اِنتہا ہے صبر کی کہ

اُسے بِکھرنے کی عادَت ہے تو شرمِیلے

پاؤں بھی حُکم مانتے ہیں اُن سُروں کا

جو کہتے ہیں کہ سنبھل جا

…چَند روز اور

اِنتظار میں ہے کنگن کہ سِہہ نہ

پاۓ بِن کھنکے اور رِہ نہ پاۓ بن چھُوۓ

جاؤ ، کہہ دو پِیا سے کہ پیاسی بانہیں

نہ ترسائیں تو کیوں کسمساؤُں

…چَند روز اور

جلُوں بن سَجن تڑپُوں بِنا نظارہ

تو کیوں نہ شِکوہ کریں نین اور

وہ کہے اَشک پِی جا

…چَند روز اور

کیا نہیں ہے آنچل کے رُخ پہ

ستارہ ، افشاں ، یا سنگِ مَرمَر

اور اُس پہ ستم کہ ہِجر کے لَب

یہی دُہائی دیں کہ چھُپ جا

…چَند روز اور

جانم!  کیوں نہ چاہُوں تُمہیں کہ

زرّہ زرّہ گواہ ہے میری ذات کا

تُم سے آشنائی کا پھر بھی درد

کہتا ہے کہ سِہہ جا

…چَند روز اور

خُود کو دیکھا نہیں زمانے ہُوۓ

اور اَب جب آئینہ سامنے ہے تو

عکس کہتا ہے اِنتظار کر

…چَند روز اور

..بِنا منزل

image

کہِیں جانا ہی نہیں

کہِیں رُکنا بھی نہیں

…بس چلتے ہی جانا ہے

تھک جاؤُں اگر تو

کہیِں ٹھِہرنا بھی نہیں

…بس اُڑتے ہی جانا ہے

کوئی راہ گُزر نہیں

کہِیں پُہنچنا بھی نہیں

…بس بڑھتے ہی جانا ہے

راہ ہموار نہ سہی

کہِیں سراۓ بھی نہیں

…بس گُزرتے ہی جانا ہے

اِنتظارِ جاں

image

ہر یاد سنبھال کے رکھی ہے

ہر حرف کو چُوما ہے میں نے

اِنتظار کو لگا کر سیِنے سے

ہر درد کو پَرکھا ہے میں نے

نقش پہ سجدہ کرکے یُوں

ہر آیت کو پڑھا ہے میں نے

محفوط دل کی پناہ گاہ میں

ہر راز کو چھُپایا ہے میں نے

..یُوں اچانک سے

image

پِھر اُس کی خُوشبو نے چونکا دِیا اچانک

دبے پاؤں لے کر آئی تھی پیغام اُس کا جو

کِہہ گئی رات کی تاریکی بات کُچھ خاص

چُپکے سے لے کر آئی تھی پیغام اُس کا جو

لگا یُوں کہ دھڑکن نے سُنی تھی رُباعی

دھیمے سے لے کر آئی تھی پیغام اُس کا جو

جھَٹ سے چھُؤا پاؤں سے لِپٹی پازیب کو

چھنکاتی لے کر آئی تھی پیغام اُس کا جو

حیِثیّتِ ذات

image

ٹھِہرتے پَل کی زندگی میں

..کوئی چلتا ہُوا وقت ہُوں شاید

جلتے آسمان کی دھُوپ تلے

..کوئی بھٹکا ہُوا سایہ ہُوں شاید

شاعر مُکمّل نہ کر سکے جو

..کوئی بھُولا ہُوا شعر ہُوں شاید

یاد کے اَشکوں میں چھُپتا

..کوئی بھِیگا ہُوا خیال ہُوں شاید

کسی مُصوّر کی تصویر میں

..کوئی بِکھراہُوا رنگ ہُوں شاید

دل کے چمن میں کھِلے

..کوئی مُرجھایا ہُوا پھُول ہُوں شاید

شمعٰ کے حسین رُخ پہ

..کوئی داغا ہُوا نشان ہُوں شاید