ساعتِ کیف

image

رنگ بِکھرتے گۓ صُبح ڈھَلتی رہی

پھُول سجتے گۓ خوُشبو مہکتی رہی

ہاتھ بِہکتے گۓ سانس اُکھڑتی رہی

کانٹے چُبھتے گۓ کلی کھِلتی رہی

پِہر گُزرتے گۓ رُوح نِکلتی رہی

پتّے جھڑتے گۓ ٹِہنی تڑپتی رہی

ہم تُم جلتے گۓ برف پِگھلتی رہی

شُعلے بڑھتے گۓ موم ٹھہرتی رہی

گُفتگُو

image

وہ پُوچھتے ہیں کہ کون ہے

وہ جس کے حُکم سے ہوتی

ہیں صُبحیں روشن؟

اور ہم کہتے ہیں وہ کہ جن

…کو سلام کرتی ہیں کِرنیں

وہ پُوچھتے ہیں کہ کون ہے

وہ جس کو دیکھ کر پھُولوں

میں جوان ہوتی ہے مِہک؟

اور ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ پیکر

ہے جس کی ذُلف سے اُدھار

…لیتی ہے خوشبو یہ صبا

وہ پُوچھتے ہیں کہ کون بھرتا

ہے تیری راتوں کی سیاہی کو؟

اور ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ جس

کی آنکھیں دیکھتی ہیں فقط

…خواب آشنائی کے

 

اَداۓ جاں

image

تُم ہو تو سجتی ہیں کلیاں

تُم ہو تو بہار اِن سے ہے

تُم ہو تو مِلتی ہیں خُوشیاں

تُم ہو تو خُمار اِن سے ہے

تُم ہو تو ادا میں رنگ بسیں

تُم ہو تو حِصار اِن سے ہے

تُم ہو تو وفا میں ترنگ بجیں

تُم ہو تو قرار اِن سے ہے

تُم ہو تو چمکتے ہی جائیں

تُم ہو تو نِکھار اِن سے ہے

تُم ہو تو سنورتے ہی جائیں

تُم ہو تو سِنگھار اِن سے ہے

..تھام لینا

image

میرے محبوب اِتنا کرم تو کر دینا ذرا

..ٹکراۓ نظر سے جب نظر وہ پَل تھام لینا

کھڑے رہیں دیِد کی چاہ میں ہم یوُنہی

..آۓ جب گھڑئِ وصل وہ پِہر تھام لینا

برق سی آرپار ہونےلگے جان و بدن کے

..رہ جاۓ باقی کسک وہ درد تھام لینا

چھیڑتارہے جواں راگ دھڑکنِ دل کا

..کھِنچےجس کشش میں وہ رُوح تھام لینا

حِدّت میں جلنے لگے گوشۂِ وجود جب

..ٹھہر جاۓ چنگاری جہاں وہ رُت تھام لینا

نظارۂِ صنم

image

کرنوں سے چھَنتا نُور دیکھا

وہ تُم ہی تھے جھانکتے ہُوۓ

موجوں سے اُٹھتا جوبن دیکھا

وہ تُم ہی تھے لِہراتے ہُوۓ

پُرکشِش رنگین سایہ دیکھا

وہ تُم ہی تھے سماتے ہُوۓ

چاند کے ہمراہ تارہ دیکھا

وہ تُم ہی تھے جگمگاتے ہُوۓ

سُرمئی شام کو ڈُوبتے دیکھا

وہ تُم ہی تھے شرماتے ہُوۓ

ہرجائی

image

کیسے بچ سکا ہے زہرِعشق سے آج تک کوئی

باوجُود شِدّت کے بھی دُنیا داری نہیں چھوڑتا

یہ وعدۂِ وفا کے دیتا ہے دلائل بے شُمار اکثر

جنون تو ہے ہی ظالم مصروفیّات نہیں چھوڑتا

کل نہ جانے کس جہاں کی زینت بنے یہ رُوح

بے بسی کی آڑ میں ہرجائی ضِد نہیں چھوڑتا

بے جان جسم کی یاد میں رویا ہے دل اِتنا

دو قدم پیچھےکیا یہ تو شکست کھانا نہیں چھوڑتا

افراتفری کے دَور میں عشق کرنے کی فُرصت کسے

شب و روز کے گُلستان میں کانٹے چُننا نہیں چھوڑتا

صداقت کی چادر میں ہِجاب اوڑھے ہے فریب یُوں

آب و تاب کے چولے میں افسُردگی پہِننا نہیں چھوڑتا

دَرِ ہِجر

image

اِتنا نہ گُم ہو جانا کہ

..خود سے مِل سکو نہ تُم

دیکھ کر آئینے میں

..عکس پِہچان سکو نہ تُم

جس موڑ سے گُزرے راہ

..ایسی منزل چھُو سکو نہ تُم

نظروں کے مِلنے پر بھی

..ستارے چُن سکو نہ تُم

ہجر کی دیوار پار کرتے ہی

..قُربت حاصل کر سکو نہ تُم

جلے شمعٰ جس اِنتظار میں

..وہ پَل لوَٹا سکو نہ تُم

اِلتجاۓ اُلفت

image

گُزارش کرے گُل کہ ابھی

تو برس رہی تھی شبنم کہ

پنکھڑیاں پھر سے مُرجھائی

جاتی ہیں کہ پیاسے ورقوں کو

…ترسانا نہیں اچھّا

کہنے لگا ساحل سمندر سے

کہ کیوں میرے کنارے تَر نہیں

ہوتے جو تُو نذر کرے اِک لہر

سیراب ہو جاۓ میری ویِرانی

ویسے بھی اپنوں کو

…تڑپانا نہیں اچھّا

شِکوہ کرےٹِہنی کہ پھول کیوں

بنا ہے زِینت پراۓ شجر کی ، ویسے

تو حق میرا بھی ہےکیونکہ دیوانوں کو

….ستانا نہیں اچھّا

اِلتجا کرتی ہے سُرخی لبوں سے

کہ ابھی ٹھہرو زرا کہ محبوب

سے مِلنے پر رنگ دینا مُجھے بے شک

ظُلمت میں یہ گُلاب پھیکے ہی سہی

مگر یہ بھی غلط ہے کہ جذبوں کو

…سُلگانا نہیں اچھّا

درخواست کرنے لگی کِرنیں آفتاب

سے کہ آج نہ دھکیل مُجھے اُس اَور

کہ کوئی کاٹ رہا ہے ہِجر کے کڑے

دن ویسے بھی دِلوں کو

…جلانا نہیں اچھّا

 

..جب کبھی

image

تُمہیں یاد ہیں وہ دھڑکتے پَل جانم

مِلتے تھے دو دل آزاد بن کے جب کبھی

تُمہیں یاد تو ہوگی وہ شوخ غزل

لبوں نے لِکھّی تھی جو سرہانے تلے کبھی

تُمہیں یاد دِلاتے ہوں گے وہ سُرخ دن

جب ٹُوٹی تھی انگڑائیاں تپتی چھاؤں میں

تُمہیں یاد تو ستاتی ہوگی اُس پایل کی

چُراتی تھی تُم سے تُمہاری ہی بے خُودی

تُمہیں یاد ہے اُس ذُلف کے رنگ چُراتےہی

بِہکنے لگتے تھے ارماں اُنگلیوں کے

تُمہیں یاد تو آتے ہوں گے چمکتےآئینے

جھانک کے جن میں اپنا نام بھُول جاتے تھے

تُمہیں یاد تو دِلاتی ہو گی وہ گُلابی مہک

پیِتے ہی جس کی پنکھڑیاں جھُوم اُٹھتی تھِیں