غُلامی

image

اَسیر ہےدل اُس عاشق کی عبادت گاہ میں

محبّت کی نماز سجدے کرنا جانتی ہے

جو کہے صنم رات تو میں تارےگِنتی جاؤُں

کہکشاں فقط اپنا آنچل پھیلانا جانتی ہے

اُس حُکم کے آگے ڈال دیتی ہُوں ہتھیاراکثر

سلطنت تو آخری فیصلہ سُنانا جانتی ہے

پتنگ ہُوں کہ بےاِختیاری میں ہےاُڑان اپنی

عشق کی ڈوری رُخ ہوا کاموڑنا جانتی ہے

شمعٰ قید ہے قُربت کے دلفریب پنجرے میں

غُلامی جنون کےحِصار میں جکڑنا جانتی ہے

چھَم چھَم

image

جیسے ہی ٹَپ ٹَپ

بُوندوں نے مہکایامیرے

آنگن کا دل تُم یاد آۓ

…مُجھے جانم

جیسے ہی رِم جھِم

کی پھُوار سے تَر

ہُوا میرےگُلشن

کا بدن تُم یاد آۓ

…مُجھے جانم

جیسے ہی چھَم چھَم

پایل کی جھنکار نے

چوُمی بارش کی

اُلفت تُم یاد آۓ

…مُجھے جانم

 

شِدّت

image

کون چاہے گا تُمہیں مُجھ سے بڑھ کر اِتنا

سُنو کہ کیا کہتی ہے دھڑکن تُم سے میری

جس طرح سے تڑپ رہی ہُوں تُمہارےعشق میں

دیکھو کہ کیا کہتی ہے تِشنگی تُم سے میری

کس بہانےسےڈھونڈے ہےاُس دید کی طلب مُجھے

سوچو کہ کیا کہتی ہے دیوانگی تُم سے میری

جن خوابوں کے بستر پہ سوتی ہُوں سر رکھ کے

جاگو کہ کیا کہتی ہے خواہش تُم سے میری

جہاں رگوں میں دوڑیں تِتلیاں تُمہارے نام کی

سمجھو کہ کیا کہتی ہے شِدّت تُم سے میری

مَرمَریِں

image

چھُوتے ہی اُس ذُلف کی لہراتی

خُوشبو نے لی انگڑائی اور سانسوں

سے برستی گرم مِہک میں دُھلے

…کئی نَو رنگ آنچل

مخمل سی ریت پہ چمکتے تاروں

نے جب چُومے بدن گُلاب کے تب

صندلی شبنم میں رَچی بے شُمار

بُوندوں نے چکھی شرابوں کی

…کئی نو خیز کلیاں

تِشنگی کی بے قابو آرزو بھڑکاتی

رہی اُس آگ کو اور لِپٹی رہی ہونٹوں

سے موم اور بے بسی کے پیراہن

نے پہنے مرمریں لباس جن کی زینت

…سے روشن ہُوۓ کئی نوَ نیاز عاشق

خُود پسندی

LP cover - Bollywood - Chandni (1989)

یہ وہی میں ہُوں

..جس کے خواب دیکھتے ہیں سُرخ  گُلاب

یہ وہی میں ہُوں

..جس کی چاندنی میں داغ ڈھونڈتے ہیں سب

یہ وہی میں ہُوں

..جس کو گِرا کے خوش نظر آتے ہیں دل

یہ وہی میں ہُوں

..جس کی آڑان کو دیکھ سکتا نہیں کوئی

یہ وہی میں ہُوں

..جس کی کامیابی کرتی ہے اِعلان سرِعام

یہ وہی میں ہُوں

..جس کے دُکھ میں راحت جلوہ گر ہے

یہ وہی میں ہُوں

..جس کے ٹُوٹتے دل کی آواز سُنتا نہیں کوئی

یہ وہی میں ہُوں

..جس کو دیکھ کےجلتے ہیں اپنے بھی بیگانے بھی

یہ وہی میں ہُوں

..جس کی آنکھیں دیتی ہیں ثبوت مُحبّت کا

یہ وہی میں ہُوں

..جس کے وجود سے گھبراتی ہے اندھیر نگری

یہ وہی میں ہُوں

..جس کی سانسیں کرتی ہیں بغاوت کا مدعوٰی

اور یہ وہی میں ہُوں

..جس کے عشق میں سجدے کرتی ہے سلطنت

بِلا شُبہٰہ

image

سچ ہےاُس کی تڑپ میں

سکُون مِیٹھی نیند سوتا ہے

سچ ہے اُس کے راستوں میں

کانٹوں کی سرحدیں ہیں

سچ ہے خواب کے پردےاُسے

ریشمی آنچل پہناتے ہیں

سچ ہےاُس کی مایوسی میں

اُمید چراغ جلاتی ہے

سچ ہے اَشک کی صداؤں میں

دُعائیں رنگ لے آتی ہیں

سچ ہے شعلوں کے رُخسار پہ

جنّت کا شاہی تاج ہے

سچ ہے جل کے ایندھن میں

پتھر ہی کُندن بَنتا ہے

تب سےاَب

image

تب چاند میرے آنگن میں روز اُترتا تھا

…اَب ہتھیلی پہ قدم جماۓ ہے

تب چاند نے کیۓ تھے چمن گُل و گُلزار

…اَب زرّہ زرّہ رُوح مِہکاۓ ہے

تب چاند کے نُور سے چمکا تھا صحن اپنا

…اَب جسم پہ ٹھنڈک برساۓ ہے

تب چاند کے وِرد میں تارے گھومتے تھے

…اَب نظروں سے رات جگمگاۓ ہے

تب چاند کے رنگ میں سِمٹی تھی شوخی

…اَب عشق میں کائنات جھِلملاۓ ہے

تب چاند کے خُمار میں شمعٰ جلی تھی

…اَب قطرہ قطرہ موم پِگھلاۓ ہے

چار چاند

image

…دیکھو!  وہ کس کے آنے سے

چاند زرا سا بِہک گیا

مُرجھایا دل کُچھ مِہک گیا

…دیکھو ! وہ کسی کی خُوشبو سے

مُعطّر ہُوا میرا آشیانہ

امِیر بنا یہ غریب خانہ

…دیکھو! وہ کس کی آہٹ سے

ستاروں نے رُخ بدل لیا

گُلوں نے سحر میں جکڑ لیا

…دیکھو! وہ کس کی رنگت سے

نوُر پھیلا ہے میرے آنگن میں

جادُو جاگا ہے اِس چمن میں

… دیکھو! وہ کس کی نظروں سے

مُنوّر ہُوۓ ہیں میرے پیمانے

سجےہیں ہونٹوں کےمے خانے

…دیکھو! وہ کس کی شان سے

بڑھا ہے فخر وقار کا

نِکھرا ہے بدن حِصار کا

…دیکھو! وہ کس کے وجود سے

پِہنا ہے مسرّت کا تاج میں نے

لمحوں کو بنایا ہے خاص میں نے

…دیکھو ! وہ کس کی تحریر سے

مِلا ہے مُحبّت کا پیغام ایسے

سُنا ہے عقیدت کا راگ ایسے

…دیکھو ! وہ کس کے سُلگانے سے

شِدّت میں جلی ہے شمعٰ آج

حِدّت میں گھُلی ہے شمعٰ آج

شریکِ جاں

image

…اِنتہا ہُوں میں

اِبتدا ہو تُم میرے کارواں کی

…راکھ ہُوں میں

زندگی ہو تُم میرے بیاباں کی

…گُلاب ہُوں میں

خُوشبو ہو تُم میرے گُلِستاں کی

…خیال ہُوں میں

حقیقت ہو تُم میرے خیاباں کی

…راز ہُوں میں

چادر ہو تُم میرے آسماں کی

…شمعٰ ہُوں میں

موم ہو تُم میرے آشیاں کی

دُشواریاں

Migration

گُستاخی کرے نظر جو

سزا مِلتی ہے رُوح کو

ہاتھ جو پہنیں ہتھکڑی

سزا مِلتی ہے آزادی کو

غلطی پر ہو جب جہاں

سزا مِلتی ہے ذات کو

نِیّت کرے گُناہ اگر

سزا مِلتی ہے بدن کو

عشق کےسفرمیں ہوں جب

سزا مِلتی ہے عقیدت کو