سمندر کا شور

وہ رات عجیب تھی۔ سمندر کا شور ٹھاٹھے مارتا ہُوا اور وہ آ نکھیں جن کی وسعت مجھے اپنا اسیر کیۓ ہُوۓ تھی۔ اُس شور میں مجھے اُس کے پیمانے دِکھائی دے رہے تھے۔ کتنا عرصہ بِیت گیا مگر اُس کی محبت آج بھی مجھے گھیرے ہے۔ اُس کا رنگ اُس کی کشش آ ج بھی میری دیوانگی کا تعاقب کرتی ہے۔ جب میں اُن لہروں کو دیکھ رہی تھی تو ایسا لگا کہ جیسے وہ سحر انگیز آ نکھیں میرا پیچھا کر رہی ہیں۔ اُس شور میں اُن کی وسعت دِکھائی دے رہی تھی۔ کئی خیال اُن آ زاد تمناؤں کو اُجاگر کر رہے تھے جہاں کبھی میرے دل کی لہروں سے طوفان اُٹھا کرتے تھے۔ میرے دل کی دھڑکنیں شدت کی تیزی اختیار کر رہی تھیں۔ وہ آ نکھیں اور اُن کے پیمانے میں ناپ سکتی تھی سمندر کے گہرے پیالوں کے ساتھ۔

وہ پاگل پن سا شور اور خماری سے بھرپور نشہ۔ دونوں ہی مجبور تھے دل کے ہاتھوں۔ عشق دل اور جنون اُسی شور کی مانند ہے جس کی عادت اور ضد ایک ایسے درد کو دعوت دیتا ہے جس کی دوا نہیں۔