صدیوں میں جو طے کریں
اُن فاصلوں میں اُڑتے ہُوۓ
…کُہرے پار کر لیں گے ہم
ہِجر کی راتوں اور حسرت
کے دِنوں میں تیرتے ہُوۓ
…ساحِل کو ڈُھونڈ لیں گے ہم
تنہائی کی شوخی چُومے
یہ قدم تب لہراتے ہُوۓ
…فُرقتوں کو طے کر لیں گے ہم
صدیوں میں جو طے کریں
اُن فاصلوں میں اُڑتے ہُوۓ
…کُہرے پار کر لیں گے ہم
ہِجر کی راتوں اور حسرت
کے دِنوں میں تیرتے ہُوۓ
…ساحِل کو ڈُھونڈ لیں گے ہم
تنہائی کی شوخی چُومے
یہ قدم تب لہراتے ہُوۓ
…فُرقتوں کو طے کر لیں گے ہم
مِہک رہی ہے ذُلف سیاہ تاب چراغِ خیال میں
غُنچۂِ آرزو پُھول بننے کے اِنتظار میں ہے
موتیۂِ حُسن میں نہایا پیراہنِ گُل دیکھیۓ
پیکرِ شجر وجُود بننے کے اِنتظار میں ہے
صَندلی رُخ سے لِپٹتا سفیدآنچل لِہرانے لگا
زہرِ مے شربت بننے کے اِنتظار میں ہے
سِتم پرور کےلمسِ تَپش سےکُھلنےلگا یہ گَجرا
نِیم شگُفتہ گُلبَدن بننے کے اِنتظار میں ہے
کروٹ کروٹ بدلتی دھڑکن جب رُوح
سے ٹکرانے لگے تو گِرتے سنبھلتے لمحوں
کی خوشبو میں کِھلتے ہیں وجود جِن کے
چمکتے لمس میں جذب ہوتے ہی دھندلا
جاتے ہیں وہ منظر جِن کے رُوبرُو
قربتوں کے ساۓ گہرے ہونے لگتے ہیں
تب باہوں میں ٹوٹنے کے خیال سے یہ دل
….اُڑنے سا لگتا ہے
مُسکاتی ہنسی جب ہونٹ چُومتی ہے
تو جِھلمِلا اُٹھتی ہے وہ نظر جس کے
پڑتے ہی اِس زنجیِر کی لڑیاں ٹُوٹنے
لگتی ہیں اور دبی چِنگاری میں
چُھپی آنچ جب چِہرے کو شوخ بناتی
ہے تو اِس احساس سے یہ حُسن
…نِکھرنے سا لگتا ہے
ڈُوبتی اُبھرتی جھیل کے مخملی
پیالے جب پُکارتے ہیں طُوفانی
انگڑائیوں میں خود کو سمونے
کو تب مستی کے گھیروں میں
پِنہاں ایک سنجیدہ لہر بے چین
عادت میں لِپٹتی جاتی ہے اور
پھر اِس تصوّر کے جوبن سےیہ شباب
….سَجنے سا لگتا ہے
جنونِ عاشقی ہُوں رُوح میں اُتر جانے دو
نشہ و خُمار ہُوں خُون میں مِل جانے دو
مچلتی گھنی چھاؤں ہے حسرت کی
تِشنگی ہُوں سانس میں گُھل جانے دو
گرم لِہروں سی چھُوۓ بدن کو چاندنی
گِرتی موم ہُوں شرم میں پِگھل جانے دو
چَشم تَر لَب بے خُودی کا سامان بنے
آشُفتگی ہُوں رگ رگ میں بِکھر جانے دو
آج پھر نئ دُھوپ
کی اُجلی شُعاؤں
میں جُھلسا ہے
احساس جہاں سے
گُزرتی ہے وہ آہٹ
جس کے سُننے کے
بعد کُچھ اور سُنائی
نہ دے تب اُفق کے
گِہرے رُخ کو اوڑھے
ہے کہکشاں جِس میں
…چُھپا ہے ایک سِتارہ
آج پھر نۓ حوصلے
کو مِلی وہ کشتی
جس کے سہارے تلے
پاۓ لاجواب پَل جن کی
ذینت سے چوکھٹ پہ
دِیۓ جل اُٹھے اور
اِن میں بسا ہے
وہ وقت جِس میں
…چُھپا ہے ایک کِنارہ
تُو کہے تو رات آفتابی ہو
تُو کہے تو دن مہتابی ہو
تُو کہے تو پھُول تِتلی بنے
تُو کہے تو آگ پانی ہو
….مُجھے بس اَب تیرے رنگ میں رنگنا ہے
تُو کہے تو رُک جاؤں میں
تُو کہے تو تھم جاؤں میں
تُو کہے تو چُھپ جاؤں میں
تُو کہے تو برس جاؤں میں
….مُجھے بس اَب تیرے رنگ میں رنگنا ہے
تُو کہے تو دھوپ جگے
تُو کہے تو چھاؤں سجے
تُو کہے تو وقت چلے
تُو کہے تو رُت بدلے
….مُجھے بس اَب تیرے رنگ میں رنگنا ہے
تُو کہے تو آنکھ جُھک جاۓ
تُو کہے تو ہونٹ کھُل جائیں
تُو کہے تو دل دھڑک جائیں
تُو کہے تو جِسم سُلگ جاۓ
….مُجھے بس اَب تیرے رنگ میں رنگنا ہے
تُو کہے تو سُرخ بنے گُلاب
تُو کہے تو عرق بنے شراب
تُو کہے تو گھٹا بنے کرن
تُو کہے تو عشق بنے رنگ
….مُجھے بس اَب تیرے رنگ میں رنگنا ہے
بے چین دل بے تاب رُوح
اِنتظار بے قرار سا ہے
بے بس دن بےرحم شب
اِنتظار بے اِنتہا سا ہے
بے کل صبر بے سُدھ ہوش
اِنتظار بے کراں سا ہے
بے خُود نیند بےصبر آس
اِنتظار بے اِختیار سا ہے
اِک اِک پنکھڑی مِہکاۓ زیبِ تن
اِس اُلفت میں جادُو ہے کمال کا
اِک اِک موتی چُومتی ہے حُسنِ تن
اِس کسک میں نشہ ہے کمال کا
اِک اِک سرگوشی کھٹکاۓ بِسترِ تن
اِس پیاس میں مزا ہے کمال کا
اِک اِک زرّہ سجدہ گر ہو رُوحِ تن
اِس عشق میں سرُور ہے کمال کا
یہ وہ راستے ہیں جن کی اِبتدا مُجھ سےاور مُجھی پہ اِنتہا جانم
جکڑ لِیا ہے تُجھے دل کے مضبُوط تاروں سے میں نے
اِن باہوں میں تیری سحر آغاز کرے اور شب اِختتام پہ پہنچے جانم
گھیر لِیا ہے تُجھے قید کے خُوبصورت دھاگوں سے میں نے
اِن دھڑکنوں کی گُونج میں تیری دھک دھک سُنائی دیتی ہے جانم
جوڑ لِیا ہے تُجھے رُوح کے بے قرار رشتوں سے میں نے
بڑھتے ہُوۓ ہاتھوں کو تیرے چُومتی ہے تپتےلمحوں کی حرارت جانم
تھام لِیا ہے تُجھے ہونٹوں کے شبنمی شعلوں سے میں نے
رِہ گۓ ساحل ادھوُرےموج کی پیاس میں
سمندر بے قدری میں تِلملانے لگا ہے
درد کی سیاہ رات بھاری ہےآسمان پہ
چاند بے رُخی میں اِترانے لگا ہے
پُھول کے لَب کو چُبھ رہے ہیں کانٹے
گُلستان بےضابطگی میں سمانےلگا ہے
شمعٰ کو گھیرے ہیں دائروں کے زاویِۓ
شُعلہٰ بے صبری میں بِہکانے لگا ہے