عشق اِنتہاۓ سرکشی کااُجڑا مزار ہے
نہ ڈَر ہے نہ خوف اِس کی تقدیر کا حِصّہ
ہجر و فُرقت میں بھی دیتا ہے سرُور بہت
وفاۓ بندگی ہے اِس ادھوری تحریرکا قِصّہ
پتنگِ جاں میں اَٹکی ہُوئی سانسیں ہیں
لہُو کی بِساط پہ ہے پھینکا ہُوا ایک پتّا
نظر سے رُوح چھُوۓ تو گُناہِ کبیرہ کیوں
جبر کی غُلامی پہ جھُکتا ہُوا حُکم کا اِکّا
ناشاد کرے اِحساسِ بے رُخی کی ادا اُسے
سمجھ سکو تو احترام ورنہ تو کھوٹا سِکّہ