

وہ موج بن کر اُتر گیا ہے
میرے سمندر میں۔
کبھی لگتا ہے کھو ہی نہ جاۓ
گہرائی کے اُس بھنور میں
جہاں جوش اُبھرتا بھی
شدت میں ہے اور ڈوبتا بھی۔
کبھی رات کو سورج کی شعاؤں سے جلتے دیکھا ہے؟ یہ وہ آ گ ہے جو لافانی خواہشوں کا سہارا بنتی ہے- اِس کی تاثیر میں کئی شعاؤں کی گرمی ہے- محبت اِس حرارت کی شعاع ہے جو کبھی مدھم نہیں پڑتی، کوئی شب کوئی دن کا اُجالا اِس کو ماند نہیں کر سکتا۔کئی سال بیت گۓ اُس کا دیدار کیۓ مگر محبت ابھی بھی قائم ہے۔ یک طرفہ عشق کا بھی عجب نشہ ہوتا ہے۔ نہ ہی کوئی اُمید اور نہ ہی کسی قسم کی غلط فہمی۔ بس خوش فہمی ہی رہتی ہے۔ عشق تو ہوتا ہی ایک طرف کا روگ کیونکہ آ پ کو اندازہ تو ہوتا ہے کہ آ پ کے ہاتھ خالی ہی رہ جائیں گے۔
ہر روز تقریباً وہ خواب کا در کھٹکھٹاتا ہے۔ اُس کی آ سیرزدہ نگاہیں اور پُرکشش آ واز میر ے صبر کو آ زماتے ہیں۔ بہت سال گزر گۓ مگر وہ اب تک میرے وجود میں زندہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے اُسے کئی بار مگر احترام کی چادر نے ڈھانپ دیۓ میرے بے باک خیالوں کے پرندوں کو جو پھر سے اُڑنا چاہتے تھے۔ عشق صرف احترام کی بانہیں تھامنا جانتا ہے۔ وہ آ نکھیں ہر دم میرا پیچھا کرتی ہیں۔ وہ یہیں ہیں۔ میرے آ س پاس میری سانسوں میں۔
کتنے سال گُزر گۓ مگر وہ اِدھر ہی ہے۔ میرے پاس میرے سامنے۔ کبھی نظر آ بھی جاۓ تو نظر انداز کرنا پڑتا ہے کیونکہ وقت اور حالات کا یہی تقاضا ہے۔ ہم سب اپنی خواہشات کو مار کر جیتے ہیں چاہے زندگی ایک ہی بار مِلے۔ کیونکہ ہم خود غرض لوگ نہیں۔ ہم سے مُنسلک بہت سے رشتے ہیں جو ہمارے اپنے ہیں۔ بے شک اُنہیں ہماری پرواہ نہیں مگر ہمیں ہے کیونکہ سچی محبت اِسی کا سبق ہمیں پڑھاتی ہے ساری زندگی۔ کوئی ایسا دن ایسی رات نئیں جب وہ میرے خیالوں کے سفر میں نہ ہو۔ کتنے سال بیت گۓ مگر وہ آ ج بھی رہتا ہے میرے دل کے مکان میں ایک حسین مور بن کے جس کے پر کھُلیں تو میرا آ نگن رنگین ہو جاۓ اور آ سنو گرے تو ماتم کا سمع ہو۔ عشق ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ہم ختم ہو جاتے ہیں مگر جذبہ نہیں۔
افسوس کہ سمجھنے میں پوری عمر گُزر جاتی ہے اور جب ہوش آ تی ہے تو سواۓ پچھتاوے کے کچھ نہیں رہتا۔
اِسی کو تو عشق کہتے ہیں۔