اِلتماس

image

نظرِگُلفام سے اِلتماس ہے کہ لَوٹ آۓ پناہوں میں

کہ زینتِ چاندنی کو خواہش ہےاور چمکنے کی

گُلستانِ اُلفت ڈھُونڈے ہے خوُشبؤِ یار کی گَلیاں

کہ نِگہتِ خُوشگوار کو تمّنا ہے اور مِہکنے کی

بے ساختہ لمحوں کی قید چاہتے ہیں نرم لمس

کہ شِہرِ ذات کو آرزو  ہے اور بِکھرنے کی

نِشانِ قدم چُنتی ہے گرم خاک اپنی پلکوں سے

کہ اِنتہاۓ شوق کو تِشنگی ہے اور پِگھلنے کی

تیری آواز کی خوشبو

image

فنا کرتی ہے تباہ کرتی ہے روز یہ تیری آواز

سفر کرتی ہے رُوح کو چِھڑاتی یہ تیری آواز

نہ جلاتی ہے نہ بُجھاتی ہے نہ مرنے دیتی ہے

اثر کرتی ہے تن بدن کو تڑپاتی یہ تیری آواز

جامِ سرگم پیتے ہیں قطرہ قطرہ اِن کی بدولت

بَسر کرتی ہےپیاس کو بڑہاتی یہ تیری آواز

کانوں کی دہلیز پہ دم توڑتی یہ سرگوشیاں

رقص کرتی کسکِ شمعٰ کو پگھلاتی یہ تیری آواز

عِشق عبادت

image

مُحبّت میں سجدہ مِحبوب کو ہو تو کافر لوگ کہتے ہیں

پِھر کیوں تمام عالم جنونِ عشق کی داستان میں مست ہُوا جاتا ہے؟

مُحبّت کی چاہ میں اِظہار گر عبادت سے بیاں ہو تو خوُب ہے

پِھر کیوں تمام عالم شور میں چھُپی خاموشی کو ادا سمجھتا ہے؟

مُحبّت جذبۂِ پاکیزگی کے دھاگے میں پِرویا مُتبّرک تعویز ہے

پِھر کیوں تمام عالم آرزؤِ مِٹّی پانے کی تمنّا میں سزا دیتا ہے؟

مُحبّت درجاتِ اٰعلیٰ کی بلند مِثال ہے جو عرش کے سرہانے مِلتی ہے

پِھر کیوں تمام عالم اِسے پیروں کی خاک تلے روندتا چلا جاتا ہے؟

ا ٹوُٹ مُحبّت


image

! جُھکی نظروں سے پوچھے کوئی کہ شاموں پہ جوبن کس کا ہے

اُجالوں پہ کبھی سیاہی کی چادریں فریفتہ ہُوئی ہیں کیا؟

! بے داغ چمک سی چَھنتی جا رہی ہے کسی کے حُسنِ نُور سے

ستاروں پہ کبھی آفتاب کی کرنیں فریفتہ ہوئی ہیں کیا؟

! جواں افسانے انوکھے جال میں بندھی گردش کے مُحتاج ہیں

عاشقوں پہ کبھی اَنا کی بارشیں فریفتہ ہوئی ہیں کیا؟

! شمعٰ کی لپیٹ میں کس قدر مدہوش ہوُۓ جاتے ہیں سُرخ گلاب

پروانوں پہ کبھی ہوا کی بدلیاں فریفتہ ہوئی ہیں کیا؟

مُحبّت نامہ

image

دیکھتی ہُوں ! اِک مچلتی لِہر

دوڑتی آرہی ہے دُور تلک

سما جانے کو لُٹ جانے کو

اپنے معشُوق کی باہوں میں

اُس کی شِدّت میں پوشیدہ

طوفان ہے اور جنون سی تیزی بھی

سرسراتی جِھلملاتی موجیں

اُبھرتے جذبات لیۓ ایک نۓ

کھیل کو جگا رہی ہیں

یہ تیرا ذِکر ہے شاید جو

موجیں مستانی ہُوئی جاتی ہیں

اُف! تیری بے مِثال داستانیں

یہاں بھی گھیرے ہیں مجھے ہر دم

خُود سے مُحبّت کرنے لگی ہوں میں بھی

کیونکہ تیرا وجُود اب شامل ہے

مُجھ میں اِن موجوں کی طرح جو

گواہ ہیں میرے قتل کی

تیرے پیغام لے کے آتی ہیں

شاید یہ لِہریں ، کیا کہنے

کیا تُجھ تک کوئی مُحبّت نامہ

پُہنچا ہے ابھی تک ؟

….تُم ہی تُم

image

چاہت و اُلفت یہ مُحبّت

تُم ہی تُم ہر طرف ….میں نہیں

دِلکشی و دِل لگی یہ دلفریبی

تُم ہی تُم ہر طرف ….میں نہیں

ساز و آواز یہ جل ترنگ

تُم ہی تُم ہر طرف ….میں نہیں

خُمار و جنوں یہ بےخُودی

تُم ہی تُم ہر طرف ….میں نہیں

تڑپ و کسک یہ خُوشبو

تُم ہی تُم ہر طرف ….میں نہیں

شعلہ و شبنم یہ جلن

تُم ہی تُم ہر طرف ….میں نہیں

تیری یاد جگا دیتی ہے

image

آدھے پِہر جب خواب

کے پرندے  اپنے

نرم مُلائم  پروں

سے اِس نازُک

نیند پہ پِہرا

لگا دیتے ہیں تب

…..تیری یاد جگا دیتی ہے

اُس رُت میں وہ

ایک ہِیرے کی دَمک

سے چُپ چاپ ہنسی

جب بَنتی ہے اور

خیال کے پردے جب

بِچھنے لگتے ہیں تب

….تیری یاد جگا دیتی ہے

مدھم کِرن کی

شفق سے رُوح

چمک سی جاتی ہے

اور پَلکیں جب

رقص کرتی ہیں

تیرتی قطاروں پہ تب

….تیری یاد جگا دیتی ہے

مِیٹھی یاد….تُمہارے لیۓ

image

شام کی سُرخی تُمہاری مِیٹھی یاد سے روشن ہے

یہ رنگ تُمہارے پل پل کا پتہ دے رہے ہیں مُجھے

پیاسے چراغ گِہری جھِیلوں کے رَس کو ڈھونڈتے ہیں

یہ گھُونٹ تُمہارے لمحوں کا پتہ دے رہے ہیں مُجھے

دل کی بے بسی جامِ یار کے نشہ میں چُور چوُر ہے

یہ احساس تُمہارے ہَر دَم کا پتہ دے رہے ہیں مُجھے

آج شب خاص ہے جو مِحو ہے جشنِ اُلفت کے رقص میں

یہ راستے تُمہارے قریب ہونے کا پتہ دے رہے ہیں مُجھے

شمعٰ کی آگ وصلِ مہتاب کے عشق میں گُھل رہی ہے

یہ نظارے تُمہارے جذب ہونے کا پتہ دے رہے ہیں مُجھے

مُسکراتے لمحے

image

وہ نظر ابھی تک

جذب ہے جس کی

خُماری چُومتی ہے

چِلمنوں کے موتی

اور اِن کی عِنایت سے

چمکنے لگتی ہے

نشِیلی نیند جِس

کی کروٹ میں

قید مُحبّت مجھے

….دیوانہ بنا جاتی ہے

وہ لمس ابھی بھی

اِحساس کی گردش میں

چُبھ رہے ہیں

جن کی گواہی سے

یہ نقش اُس کے

اثر میں گُھلے

جاتے ہیں اور اُن

گرم ہاتھوں میں

گر اُنگلیاں دَم

توڑیں تو یہ حرارت

اِس پاگل وجود کو

….نشیلا بنا جاتی ہے

دوڑتی اِک لہر کی

جلن سے یہ جسم

اُلجھے دھاگوں میں

بندھا جاتا ہے اور

پھر گیلی ریت کے

ساحِل پر  جب

دُھلتے ہیں راستے

اِس طرح کہ خاک

کی اُڑھتی دھوپ اِسے

…..مُکمّل بنا جاتی ہے

اِن  دھڑکنوں میں

ابھی بھی وہ

بےچینی ہےجِسکے

چھوُتے ہی دل نے

تسلیم کیا اُس

شِدّت کو  جِس کی

دستک نے  نۓ  سازوں

میں حُسن بھر کے

زندگی بخشی ہے

اور اِس بے پرواہی کی

آزاد کسک  اِسے

….آوارہ بنا جاتی ہے

خُود سے شناسائی

image

نِگاہِ یار کی کششِ سرُور سے بےکل ہوُۓ جاتے ہیں

چلو رُوحِ سمندر میں اُتر کر خُود کو دیکھ لیتے ہیں

نام و نِشاں نہیں مِلتا سایۂِ خُودی میں گُم ہو جاؤں گر

چلو جھرونکۂِ سیاہی میں اُتر کر خُود کو دیکھ لیتےہیں

تلا طُمِ جنوُن کو چھُوتے ہی ڈوریں اُلجھ سی جاتی ہیں

چلو لمسِ ریشم میں اُتر کر خوُد کو دیکھ لیتے ہیں