آرزُو

image

خوُد کو پِیتی ہوُں جب آئینۂِ نشے سے ٹکراتا ہے یہ دل

فَقط اُس کی آنکھوں میں ڈُوبنا ہے، اورکوئی آرزُو بھی نہیں

قِصّۂِ ذات  تمام ہُوا اُن دھڑکنوں نے جب کروٹ لی

فَقط اُس کی سانسوں میں جھُولنا ہے،اور کوئی چاہ بھی نہیں

تڑپتی ہے رُوح جب شِدّتِ کسک چُومے بدن کی کلیاں

فَقط اُس کی باہوں میں جُھومنا ہے،اور کوئی خواہِش بھی نہیں

اُس حصارِ خوُشبو میں دَم توڑتے ہوۓجب رُوبرُو ہونے لگوں

فَقط اُس کی آغوش میں لُٹنا ہے،اور کوئی تمّنا بھی نہیں

سایۂِ وجُود کی کشِش میں جب بے خوُد ہونے لگے شمعٰ

فَقط اُس کی گردِش میں گھُومناہے،اور کوئی حسرت بھی نہیں

..مُمکن نہیں

image

وہ جام ہے جس کے لَب کو

چھُوتے ہی بھر جاتے ہیں

راستے سبھی جن کے سبب

سے تڑپتی سانسیں پیاس

کی تلاش میں سمندر کا

رُخ کریں بھی تو باوجُود

…ڈوبنے کے ڈُوب نہیں سکتیں

کُچھ بہکتے لمحوں کے مخمور

تصوّرات  ٹھہر گۓ ہیں پلکوں

کی قطاروں پر جن کی دھڑکن

ایسے شور کو جگاتی ہے جس

میں پِگھل کے شبنمی آنچ باوجُود

…بُجھنے کے بُجھ نہیں سکتی

جس تپِش کی گردش میں

سُلگ رہا ہے بدن ایسے کہ

رُوح مُکمّل بھی نہیں اور

ادھُوری بھی نہیں تب بڑھتے

گھَٹتے جذبات میں بہتے

شراروں کی شوخیاں باوجُود

…تَھمنے کے تَھم نہیں سکتیں

 

میرا مقام

image

….اُس کے شہر کی گلیوں میں

پُھول کِھلتے ہیں بے حساب اور

گھٹاؤں کے پردوں سے چَھنتی

دھُوپ مُحبّت برساتی ہے

….اُس کے شہر کی گلیوں میں

سُورج میرا نام لیتا ہے اور

چُومتا ہے اِس بدن کی

دِیواروں کو جب تِتلی بن

اُڑنے لگتی ہُوں

….اُس کے شہر کی گلیوں میں

مُسکراہٹ جب دبے پاؤں

آتی ہے اور رونق شاہانہ انداز

میں دستک دیتی ہے تو زندگی

اور خُوبصورت ہو جاتی ہے

….اُس کے شہر کی گلیوں میں

سُناتی ہے صبا عشق کی

کہانیاں تب چاروں اُور

گُلاب کی پنکھڑیاں رقص

کرتی نظر آتی ہیں

!کیا کیِجیۓ

image

مُجھ سے شناساں ہے وہ قاتل دھڑکن

آشنائی کی حد گرَ شکست دے تو کیا کیجیۓ

اندھیرا خُوب چمکتا ہے اُس کے آنگن میں

روشن میری گلیاں گرَ ہوں تو کیا کیجیۓ

چاند سجدے کرتا ہے اُس کے قدموں میں

عبادت میں گرَاُس کا نام لُوں تو کیا کیجیۓ

دھنک اُدھار لیتی ہے اُس سے نۓ رنگ

اُس کے رُوپ میں گرَ نہا لُوں تو کیا کیجیۓ

شام اُن نظروں کی تاب سےحسن و جوان ہے

اِس جوبن پہ گرَ وہ اپناکرم کر دےتو کیا کیجیۓ

اُس کے وجُود میں چمک ہے بے پناہ ہیِرے سی

تراش لے گرَ وہ موم سے یہ جسم تو کیا کیجیۓ

گُل گِیر

image

مُحبّت کی کَڑی زنجیِرمیں بندھےہاتھ ہیں

سِتم گر نے قیدِ عاشقی میں مزارکھا ہے

سیلابِ درد میں چُھپا سرُور کا دریا ہے

سِتم گر نے بربادئِ دل میں مزا رکھا ہے

خُود کےآنسو پیتےہیں آبِ مےسمجھ کر

سِتم گر نے پیالۂِ زہر میں مزا رکھا ہے

شمعٰ اپنے وجود کو مِٹتا دیکھ رہی ہے

سِتم گر نے سوزِ آتِش میں مزا رکھا ہے

…رہِ یار سے

image

چُنتے لمحوں کے عکس میں کِھل رہے ہیں بھیگے پل

ٹُوٹ کے برسیں گے مُلاقات کے گہرے سایوں میں

سرشار ہے دل وصل کی حسین مِحفل سجانے کو

لِپٹ کے سمائیں گے باہوں کے نشِیلے سایوں میں

راحتِ چاہ میں سُلگتےارمان حد سےگُزرجائیں گے

بکھرکےسِمیٹیں گےجسموں کےمخملی سایوں میں

صدائیں

image

کِسی راستے بھی چل نِکلوُں

تیری آنکھیں پِیچھا کرتی ہیں

گہری جھیل کےعکس تلےچُھپے

ڈوبتی کِرنیں پِیچھا کرتی ہیں

سبز دوپہر کی تازگی میں بسے

روشن راہیں پِیچھا کرتی ہیں

تیری یاد کی شعاعوں میں گُونجتی

ایسی صدائیں پِیچھا کرتی ہیں

 

تِتلیاں

image

اُس کے ہاتھ کی خوشبو

ابھی تک اپنے جسم کے

گوشوں میں گردش کرتی

محسوس ہوتی ہے اور اِس

مہک کے سرُور سے  بھرنے

لگے جب رُوح کا آسمان تب

میرے دل کے مِحل میں

….تِتلیاں ناچتی نظر آتی ہیں

سوچتے ہُوۓ جب اپنی ذُلف

ایسے اُنگلی میں لَپیٹوُں تو

اُس کی پیار بھری نظر ایسے

چمکنے لگتی ہے  جیسے کالی

بَدلی سے جھانکتے چاند کی

شوخ کِرن فرش پہ قادر ہونے

لگے اور اِس روشنی سے میرے

حُسن کی  خورشید گلیوں میں

…..تِتلیاں ناچتی نظر آتی ہیں

نَزدیکِیاں

image

اِنتہأِ قُربت کی آگ

میں جلتے ہُوۓ اِن

نظروں کی شام سے

جب چراغاں ہوتا ہے

اور لَب سُرخ شام میں

جذب ہونے لگتے ہیں تب

چھلَک جاتی ہے سُرمئ

آنکھ جس کو چُومتے ہی

نِگاہِ یار کا ستارہ جس کے

سَبب سے اُکھڑتی سانسوں کا

…..جنون جوش مارنے لگتا ہے

ساغرِ حُسن کی ڈگمگاتی

چال جب نشِیلے پیمانوں کو

چُھولے تب پَلکوں سے ٹکراتی

چِلمن اُلجھتی ڈوروں کو کھولنے

لگتی ہے اور دھیمی سرگوشی

روح میں اُتر جاتی ہے پھر یُوں گیِلی

موم کی مِہک  سے نوخیز کلیوں کا

…..جنون جوش مارنے لگتا ہے

شِدّتِ بیقراری

image

بے اِختیاری کی اُڑان میں مُسکراتے بے قید پَل آزاد ہیں

کیسے سمبھالیں گے بےلگام وقت میں چُھپے حِصار کو

بے بس لمحوں کی آڑ میں بے خوف رنگین اِرادے اَٹل ہیں

کیسے تھامیں گے بے خُودی میں بسے تلا تُمِ جذبات کو

بے حِساب و اِنتہا میں ٹُوٹتے بے پرواہ جسم و جان ہیں

کیسے روکیں گے بے کَل آوارہ شُعلوں کے سُلگتے ساز کو

بے مثال عشق کے مِحور سے آراستہ ہے بے پناہ گُل رُخ

کیسے سمیٹیں گے بے چین کروٹوں کے شبنمی جالوں کو